بھارت ہمسایہ ممالک کو غیر مستحکم کرنے کی پالیسی پر گامزن
لداخ میں پسپائی اوررسوائی کے بعد دشمن نیا محاذ کھول سکتا ہے :تجزیہ
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں جہاں ملکی خودمختاری کے ہر قیمت پر دفاع کا عزم ظاہر کیا گیا وہاں پر امن بقائے باہمی پر اپنے یقین اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہم اپنی سالمیت کے دفاع کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اور ملکی سرحدوں کی سلامتی کیلئے پرعزم ہیں۔ اجلاس کا انعقاد ، ایجنڈا اور اس پر غوروخوض کی ٹائمنگ اہم ہے کیونکہ بھارت اندرونی طور پر اپنے لئے بڑھتے ہوئے مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے روایتی طور پر ہمسایہ ممالک کو غیر مستحکم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے جس کی ایک بڑی مثال کراچی میں سٹاک ایکس چینج کو ٹارگٹ کرناہے جس کا واضح مقصدپاکستان کی تجارتی شہ رگ پر حملہ کر کے دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ آج بھی پاکستان میں دہشت گردی عام ہے ۔ اس واقعے سے پہلے حکومت کی جانب سے بارہا یہ خدشہ اور خطرہ ظاہر کیاجارہا تھا کہ بھارت پاکستان پر فالس فلیگ آپریشن کر سکتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ بھارت کی کنٹر ولائن پرمسلسل فائرنگ کا مقصد ایل اوسی کے محاذ کوگرم رکھنا ہے تاکہ دنیا کی توجہ مقبوضہ وادی کے اندر جاری بدترین فسطائیت سے ہٹا دے اور یہ بتاسکے کہ اصل ایشو کنٹرول لائن ہے ۔ پاکستان کی جانب سے اس کے جواب میں ذمہ دارانہ طرزعمل اختیار کرتے ہوئے کسی بڑے ردعمل کے بجائے سفارتی احتجاج کا روایتی طریقہ اپنایا گیا اور دنیا کو متوجہ کیاگیا کہ وہ بھارتی رویئے کا نوٹس لے کیونکہ یہ کسی بڑی محاذ آرائی اور تناؤ کا باعث بن سکتا ہے ۔ اجلاس میں کہا گیا کہ عالمی برادری کو چاہئے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا نوٹس لے لیکن افسوس کہ عالمی طاقتوں اور اداروں کی جانب سے مناسب ردعمل سامنے نہیں آرہا۔ اجلاس کے اعلامیہ میں نہایت ذمہ دارانہ طرزعمل اختیار کرتے ہوئے کہاگیا کہ ہم اپنی سلامتی و خودمختاری پر آنچ نہیں آنے دیں گے ۔ اس امر پر دو آرا نہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج نے اپنی بنیادی ذمہ داری کے طور پر اسے اپنے اولین مقصد کے طور پر نبھایالیکن لداخ کے محاذ پر چینی فوج کے ہاتھوں پسپائی اور رسوائی کے بعد بھارت محاذ کھول سکتا ہے اور ایسی صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں اتحاد و یکجہتی کی فضا پیدا ہو تاکہ ہماری فوج زیادہ اعتماد کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کر سکے ، جب قوم اس کی پشت پر کھڑی ہو ۔علاقائی صورتحال اور بھارت کے خطرناک عزائم کے خلاف پاکستان اور چین کے درمیان اعتماد کا تعلق اس کیلئے بڑی رکاوٹ اور چیلنج ہے ، یہی وجہ ہے کہ اہم علاقائی ایشو پر چین اور پاکستان کے درمیان مشاورتی عمل ہوتا ہے ۔ گزشتہ روز بھی پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے چینی ہم منصب سے ٹیلیفونک رابطہ کیا اور اہم بین الاقوامی ایشوز پر باہمی تعاون کے فروغ پر اتفاق ہوا۔ وزیر خارجہ نے چینی ہم منصب کو بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن پر پیدا شدہ صورتحال سمیت دیگر ایشوز پر اعتماد میں لیا جس پر چینی وزیر خارجہ نے کہا علاقائی صورتحال میں پاکستان کا کردار ذمہ دارانہ ہے اور ہر مشکل گھڑی میں چین کی معاونت پر اسکے شکرگزار ہیں ۔