ڈی جی ایکسائز نے شراب لائسنس جاری کرنے بعد سمری بھیجی : وزیراعلیٰ بزدار کے نیب کو جوابات
غیرقانونی کام کیا نہ اجرا میں وزیراعلیٰ ہاؤس کاکوئی کردار،لائسنس دینے کااختیار ڈی جی ایکسائزکے پاس، 8جنوری 2019 کو پرانی سمری بھیجی گئی 5مارچ کو سیکرٹری ایکسائز نے پرنسپل سیکرٹری کو دوبارہ نوٹ بھیجا ،وزیراعلیٰ ہاؤس کو مجبور کرنیکی کوشش کی تاکہ پہلے سے ہوئے کام کی منظوری مل جائے ڈی جی ایکسائز سے پوچھنا چاہئے وہ لائسنس کی سمری بار بار کیوں بھجوا رہے تھے ، میرے خلاف الزامات مفروضوں پر مبنی،شکایات کی کاپی نہیں دی گئی خبر شائع ہوئی تو سیکرٹری ایکسائز نے لائسنس منسوخ کردیا ،رشوت لینے جیسے الزامات پر کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہوں، 17سوالات کے تفصیلی جوابات
لاہور(دنیا انویسٹی گیشن رپورٹ)وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے شراب لائسنس جاری کرنے کے معاملے پر نیب کوجواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈی جی ایکسائز نے شراب لا ئسنس جاری کرنے بعد سمری بھیجی ،میرے خلاف الزامات مفروضوں پر مبنی ہیں۔ رشتے دارسے رشوت لینے جیسے توہین آمیز اور جھوٹے الزامات پر کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔وزیراعلیٰ کی جانب سے شراب لائسنس کے اجرا کے معاملے پرنیب کو 7صفحات پر مبنی جواب جمع کروایا ہے جس میں نیب کی جانب سے پوچھے گئے 17 سوالات کے تفصیلی جوابات دیئے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب کی دستاویزات روزنامہ دنیا نے حاصل کرلی ہیں ۔ دستاویزات کے مطابق عثمان بزدار نے موقف اختیار کیا کہ ان پر جھوٹے الزامات اور مفروضوں کی بنیاد پر مبنی 17سوالات پر مشتمل سوالنامہ تو دیا گیا مگر شکایت کی کاپی نہیں دی گئی جو میرابنیادی حق ہے ۔ انہوں نے جواب میں کہا شراب لائسنس کے معاملے میں کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا اورنہ ہی اس کے اجرا میں وزیراعلیٰ ہاؤس کاکوئی کردارہے ۔شراب کالائسنس دینے کااختیارصرف ڈی جی ایکسائزکے پاس ہے ،آج تک شراب کے کل 11 لائسنس جاری ہوئے جن میں سے 9 ڈی جی ایکسائز اور 2 گورنرنے جاری کیے ،گورنرنے سال 2000 اور 2001 میں شراب کے لائسنس جاری کیے تھے ۔دستاویزات کے مطابق وزیراعلیٰ نے نیب کو بتایا ہے کہ شراب کا لائسنس دینا قانونی طور پر ڈی جی ایکسائز کی ذمہ داری ہے ۔انھوں نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ ڈی جی ایکسائز نے 8جنوری 2019 کو نئی سمری بھجوائی تھی بلکہ یہ پرانی سمری ہی تھی جو اس سے قبل چیف سیکرٹری کو بھجوائی گئی ۔ تاہم دوسری بار یہ سمری بھجواتے ہوئے اس میں کچھ پیراگراف کا اضافہ کردیا گیا تھا۔ یہ کیس حکومت پنجاب کے رول آف بزنس 2011 کے رول 14 کے تحت نہیں آتا تھا ، اس لیے اس میں وزیراعلیٰ کی اجازت کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ مزید یہ کہ8جنوری2019 کو ڈی جی ایکسائز نے سمری بھجوائی جسے سیکرٹری ایکسائز نے 14جنوری 2019 کو یہی سمری دوبارہ بھجوائی مگر نہ ڈی جی ایکسائز اور نہ سیکرٹری ایکسائز نے آگاہ کیا کہ شراب کے لائسنس کا اجرا 9جنوری 2019 کو کردیا گیا ہے ۔ لائسنس کا اجرا ہونے کے باوجود چیف سیکرٹری اور ڈی جی ایکسائز نے اس بات کو چھپا لیا تھا ۔وزیراعلیٰ نے نیب کو جمع کرائے گئے جوابات میں بتایا کہ جب پرنسپل سیکرٹری نے دیکھا کہ سمری پہلے چیف سیکرٹری دیکھ چکے ہیں تو انھوں نے یہ سمری واپس چیف سیکرٹری کو بھجوا دی اور چیف سیکرٹری نے اس پر نوٹ لکھا کہ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر لائسنس کے اجرا میں احتیاط کے ساتھ تمام قواعد پر عمل کیا جائے ۔5مارچ 2019کو سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے براہ راست پرنسپل سیکرٹری وزیراعلیٰ کو دوبارہ اس معاملے کا نوٹ بھیجا جس پر پرنسپل سیکرٹری نے اس سمری کو غیر ضروری قرار دیدیا۔یہ نوٹ دراصل وزیراعلیٰ ہاؤس کو مجبور کرنے کی کوشش تھی کہ پہلے سے ہوچکے ایک کام کی منظوری دیدی جائے ۔ وزیراعلیٰ کے جواب کے مطابق‘‘5 مارچ 2019 کو سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے سمری چیف منسٹر کو نہیں بھجوائی، بلکہ پرنسپل سیکرٹری کو ایک نوٹ جاری کیا ،جس میں پیرا 5 میں بتایا گیا کہ ڈی جی ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن کی جانب سے پہلے ہی لائسنس جاری کیا جا چکا ہے ۔ پرنسپل سیکرٹری نے اس نوٹ کے پیرا 7 میں یہ لکھ کر اس کو چیف سیکرٹری کی جانب واپس بھیج دیا کہ یہ نوٹ غیر ضروری ہے اور رولزکے تحت اس کی ضرورت نہیں ۔ پرنسپل سیکرٹری کی جانب سے لیے جانے والے تمام اقدامات پنجاب حکومت کے رولز آف بزنس کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ لائسنس پہلے ہی 09جنوری 2019 کو جاری کیا جا چکا تھا، لہٰذا اس نوٹ کو جاری کیے جانے کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے ۔وہ عمل جو 2 مہینے پہلے ہی کیا جا چکا ہے اس پر نوٹ جاری کرنے کا جواز نہ تو قانون میں اور نہ ہی رولز آف بزنس 2011 میں ہے ۔’’دستاویزات کے مطابق وزیراعلیٰ نے نیب کودیئے گئے جواب میں کہا کہ ڈی جی ایکسائز کی جانب سے غیر ضروری طور پر وزیراعلیٰ ہاؤس کو نوٹ بھیجنے کے حوالے سے پرنسپل سیکرٹری اور چیف سیکرٹری نے واضح کردیا تھا۔اس حوالے سے ڈی جی ایکسائز سے پوچھا جانا چاہئے کہ وہ بار بار وزیراعلیٰ ہاؤس کو سمری کیوں بھجوا رہے تھے ۔وزیراعلیٰ نے اپنے جواب میں کہا کہ ‘‘یہ سوال اس شخص کے لئے زیادہ موزوں ہوگا جس نے ناجائز سمریاں بنائی تھیں اور جسے سینئرز نے ایسا کرنے پر سرزنش کی تھی۔ پرنسپل سیکرٹری کیلئے سمری اور نوٹ بھیجنے کے طریقہ کار کا واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے ۔ یہ سوال اس حقیقت کے پیش نظر اپنی مطابقت کھو دیتا ہے کہ اس معاملے میں وزیر اعلیٰ کا کوئی کردار نہیں ۔’’ وزیراعلیٰ نے نیب کو اپنے جواب میں کہا کہ ان کا پرنسپل سیکرٹری ڈاکخانے کا کام نہیں کرتا بلکہ وہ ضوابط کے مطابق فیصلہ کرتا ہے کہ وزیراعلیٰ تک کس چیز کو جانا چاہئے ،وزیر اعلیٰ کی جانب سے دیئے گئے جواب کے مطابق پرنسپل سیکرٹری قانون اور رول آف بزنس کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھاتا ہے اور رول آف بزنس کے مطابق معاملات کی طرف وزیر اعلیٰ کی توجہ دلاتا ہے ، وہ رول آف بزنس کے تحت تمام معاملات کا جائزہ لے لیتا ہے اور اس کے بعد معلومات یا منظوری کیلئے وزیر اعلیٰ کو بھیجتا ہے ۔ اس مخصوص کیس میں معاملے کو قانون اور پالیسی کے مطابق چلانے کے علاوہ دستخط کنندہ کی کوئی ہدایت یا شمولیت نہیں۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے جمع کرائے جواب میں کہا گیا ہے کہ قواعد کے مطابق شراب لائسنس کے اجرا میں وزیراعلیٰ کا ہی نہیں بلکہ پرنسپل سیکرٹری اور چیف سیکرٹری کا بھی کوئی کردار نہیں ۔ لائسنس کے اجرا کے لیے شرائط پوری کرنا اور ان کی جانچ پڑتال کرنا ڈی جی ایکسائز کی ذمہ داری ہے ۔ انھوں نے اپنے جواب میں کہا کہ‘‘متعلقہ قانون یا رولز میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ یا اس کا دفتر لائسنس کے اجرا کے معاملات کو دیکھے گا۔ اسی طرح، چیف منسٹر آفس حقائق کی تصدیق اور لائسنس کی اہلیت کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے لیے موزوں جگہ نہیں، جبکہ قانون کے مطابق اس معاملے میں یہ ذمہ داری ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے پاس ہے ۔’’ سمری دوبارہ چیف سیکرٹری کو بھجوانے کے حوالے سے دیئے گئے جواب میں وزیراعلیٰ نے موقف اختیار کیا کہ ‘‘خط کا متن یہ ظاہر کرتا ہے کہ جن کیسز میں وزیراعلی ٰکی منظوری یا معلومات کی ضرورت ہوتی ہے وہ رولز آف بزنس کی شق 14 کے مطابق بلاواسطہ وزیراعلیٰ کے دفتر میں جمع کروائی جاتی ہیں۔ البتہ صرف وہ سمریاں جن میں چیف سیکرٹری کی رائے یا رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان کے آفس سے ہو کر آتی ہیں۔ رولز آف بزنس کے تحت تمام سمریاں وزیراعلیٰ آفس سے واپس چیف سیکرٹری آفس ہی جاتی ہیں’’۔وزیراعلیٰ کی جانب سے جمع کرائے گئے جوابات کے مطابق 29 مئی 2020 کو شراب کے لائسنس کے حوالے سے خبر شائع ہوئی تو سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے کمیٹی بنادی ۔ اس نے شراب کا یہ لائسنس منسوخ کردیا جس کے نتیجے میں لائسنس ہولڈر لاہور ہائیکورٹ چلا گیا ۔ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے کے ذریعے لائسنس بحال کردیا تھا جس کے بعداس فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت انٹراکورٹ اپیل میں چلی گئی تھی۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے 17سوالات کے تفصیلی جوابات دیئے گئے ہیں اور ان جوابات کے ساتھ تمام ثبوت منسلک کیے گئے ہیں۔