ڈسکہ: دوبارہ الیکشن کا فیصلہ برقرار، شفاف اور منصفانہ انتخابات الیکشن کمیشن کا کام ,وہ مناسب اقدامات میں ناکام رہا: سپریم کورٹ، حلقے میں پولنگ 10 اپریل کو کرانیکا فیصلہ
یہ درست نہیں کہ مساوی ماحول نہ ملا ،پریذائیڈنگ افسران ڈرے سہمے تھے ،جس نے غائب کئے انتخابی عمل کو دھچکا لگایا،نتائج متاثر ہوں تو دوبارہ پولنگ ہو سکتی:جسٹس عمر عطابندیال ، تفصیلی فیصلے میں انتخابی معاملات ریگولیٹ کرنیکے اصول وضع کرینگے :ریمارکس،الیکشن کمیشن کا سکیورٹی پلان منظور،فوج ، رینجرز تعینات کرنیکا فیصلہ،پوسٹل بیلٹ کیلئے درخواستیں طلب
اسلام آباد(سپیشل رپورٹر،وقائع نگار،دنیا نیوز ) سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے تحریک انصاف کے امیدوار اسجد ملہی کی اپیل خارج کردی ،الیکشن کمیشن نے حلقے میں پولنگ 10اپریل کو ہی کر انے کا فیصلہ کیا ہے ،عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر مختصرفیصلہ سنایا اور قراردیا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ پارٹیز کو مقابلے کیلئے مساوی ماحول نہیں ملا،شفاف اور منصفانہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے جس کیلئے وہ مناسب اقدامات میں ناکام رہا،پریذائیڈنگ افسران ڈرے سہمے تھے ،پریذائیڈنگ افسران جس نے غائب کئے اس نے انتخابی عمل کو دھچکا لگایا،نتائج متاثر ہوں تو دوبارہ پولنگ ہو سکتی ہے ،تفصیلی فیصلے میں انتخابی معاملات اور افسران کو ریگولیٹ کرنے کے اصول و قانون وضع کریں گے ۔جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی،جسٹس عمر عطا بندیال نے اپیل کنندہ کے وکیل شہزاد شوکت،فریق مخالف مسلم لیگ ن کی امیدوار کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور الیکشن کمیشن کے وکیل میاں عبدالرئوف کو عدالت کی معاونت کرنے اور اچھے دلائل دینے پر ان کی ستائش کی ،کیس کی سماعت شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل میاں عبدالرئوف نے مزید حقائق عدالت کے سامنے رکھے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ قانونی نکات بیان کریں،صرف ان دستاویزات پر انحصار کریں جن کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا، الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا انتخابی عمل میں انتخابی قوانین کی خلاف ورزیاں ہوئیں اورالیکشن کمیشن نے اپنا فیصلہ اسی بنیاد پر دیا ، آئی جی پنجاب اور دیگر حکام نے فون نہیں سنے ،13 پولنگ سٹیشنز پر پولنگ معطل رہی،فائرنگ کے واقعات پورے حلقے میں ہوئے ،الیکشن ایکٹ کی تمام شقوں پر عملدرآمد نہ ہو تو الیکشن کالعدم تصور ہوتا ہے ، حلقہ میں اس وقت کی صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی متعدد شقوں کی خلاف ورزی ہوئی،عدالت کے ریکارڈ پر رکھے گئے نقشے سے واضح ہے کہ ایک بلڈنگ میں متعدد پولنگ سٹیشن تھے ، علاقے میں فائرنگ یا بدامنی کا اثر ایک نہیں بلکہ سو سے زائد پولنگ سٹیشنز پر پڑا، صورتحال سے واضح ہے کہ حلقے میں لیول پلے انگ فیلڈ نہیں تھی ، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ڈکشنری میں لیول پلے انگ فیلڈ کا معنی دیکھیں کیا ہے ، آپ کے خیال میں ایک فریق کیلئے حالات سازگار تھے اور دوسرے کیلئے نہیں،اگر بدامنی تھی تو دونوں کیلئے حالات ناسازگار تھے ،آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ بدامنی تھی لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ تمام پارٹیوں کو مقابلے کیلئے مساوی ماحول نہیں ملا،آپ احتیاط کریں اور لیول پلے انگ فیلڈ جیسے الفاظ استعمال نہ کریں،ووٹرز کیلئے مقابلے کے مساوی ماحول کا لفظ استعمال نہیں ہوتا،الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل نمٹاتے ہوئے موقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کے دوران انتخابی قوانین پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے پورا انتخابی عمل کالعدم کیا،انہوں نے صدیق بلوچ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا اور کہا کہ ڈسکہ شہر اور کچھ دیہی علاقوں میں امن وامان کی صورتحال کی وجہ سے الیکشن کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ پور انتخابی عمل متاثر ہوچکا ہے ،تحریک لبیک کے وکیل نے کہا وہ الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سے اتفاق کرتے ہیں ، تحریک انصاف کے امیدوار کے وکیل شہزاد شوکت نے جواب الجواب میں دلائل دیتے ہوئے کہا پریذائیڈنگ افسران کیساتھ پولیس سکواڈ نہیں تھے ،صرف ایک پولیس گارڈ پریذائیڈنگ افسر کیساتھ تھا،نجی طور پر حاصل کی گئی گاڑیوں میں وائرلیس سسٹم نہیں تھا،ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے کہا 25 پولنگ سٹیشنز پر رینجرز موجود تھی، لاپتا پریذائیڈنگ افسران کے پولنگ سٹیشنز پر بھی رینجرز تھی،جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ رینجرز موجود تھی لیکن وہ عام پٹرولنگ کیلئے تھی،وکیل نے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے ڈائون لوڈ کی گئی چند دستاویزات عدالت میں پیش کیں اور کہاانتخابی مواد اور آر او کو پہنچانا اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسر کی ذمہ داری ہے ،اگر ذمہ داری اسسٹنٹ پریذائیڈنگ افسر کی تھی تو پریذائیڈنگ افسر کا غائب ہونا غیر اہم ہوجاتا ہے ،ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے کہا یہ ذمہ داری پریذائیڈنگ افسران کی ہے اس ضمن میں متعلقہ دستاویزات عدالت کو فراہم کر دی جائیں گی،شہزاد شوکت نے کہا پریذائیڈنگ افسران سے تحقیقات کرنی ضروری تھیں جو نہیں کی گئیں ،سمجھ نہیں آتا کہ الیکشن کمیشن کو کیا جلدی تھی،پریذائیڈنگ افسران کو کون کہاں لے کر گیا ؟، ذمہ دار سامنے آنے چاہئیں ، سمجھ نہیں آ رہا الیکشن کمیشن نے آئی جی کی رپورٹ کو غلط کس بنیاد پر کہا ،آئی جی کو کیوں نہیں سنا گیا،گوجرانوالہ کے ضمنی الیکشن میں ٹرن آئوٹ 47 فیصد تھا، ڈسکہ میں ٹرن آئوٹ 46.92 فیصد رہا جسے کہا گیا کم ہے ، الیکشن کمیشن کا موقف غلط ہے کہ لوگ ووٹ ڈالنے نہیں آ سکے ، این اے 75 میں 2018 کے الیکشن میں ٹرن آئوٹ 53 فیصد تھا، ن لیگ نے عام انتخابات کی نسبت ضمنی انتخاب میں زیادہ ووٹ لیے ، ضمنی انتخاب میں فائرنگ کے صرف 5 مقدمات درج ہوئے ہیں، مقدمات کے مطابق فائرنگ صرف 19 پولنگ سٹیشنز پر ہوئی،سمری انکوائری میں بھی پولیس اور انتظامیہ کو سننا ضروری تھا، دوبارہ پولنگ کیلئے پی ٹی آئی کو نوٹس کرنا ضروری تھا،ماضی میں بھی سمری انکوائری میں سب کا موقف سنا گیا،الیکشن کمیشن کے پاس 60دن تھے پورے معاملے کی انکوائری کرتے ،بیس پریذائیڈنگ افسران کہاں گئے کون لے گئے ؟،ان کو بلاکر تفتیش کرلیتے ،انتظامیہ کو سنا جاتا اور پھر فیصلہ کیا جاتا لیکن الیکشن کمیشن نے فیصلے میں جلد بازی کی،مختصر فیصلے کے ذریعے نتائج کالعدم کرنا غیرقانونی تھا،لگتا ہے الیکشن کمیشن نے غصے میں آکر فیصلہ دیا،شاید الیکشن کمیشن کو انتظامیہ پر غصہ تھا ،جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ 20 پولنگ سٹیشن پر قانون کی خلاف ورزیاں تو ہوئی ہیں،فائرنگ سے 2 افراد قتل اور ایک زخمی ہوا،الیکشن کمیشن ڈسکہ میں مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہا،الیکشن کمیشن کا کام ہے کہ وہ شفاف اور منصفانہ انتخابات کرائے ،بیس پریذائیڈنگ افسران کو جس نے بھی اغوا کیا ، یہ غیر معمولی واقعہ ہے ۔ پریذائیڈنگ افسران جس نے بھی غائب کیے اس نے انتخابی عمل کو دھچکا لگایا،نتائج متاثر ہوں تو دوبارہ پولنگ ہو سکتی ہے ،پریذائیڈنگ افسران ڈرے ہوئے اور سہمے ہوئے تھے ،الیکشن کمیشن نے فیصلے میں قرار دیا کہ انتخابی عمل کے دوران پر امن ماحول نہیں تھا،پنجاب حکومت کا الیکشن کمیشن کو تعاون نہ کرنے کو نظر انداز بھی کر دیں پھر بھی پر امن ماحول نہ ہونا بہت اہم نکتہ ہے ،ماضی میں بیس پریذائیڈنگ افسران کے غائب ہونے کی کوئی مثال نہیں ملتی، تحریک انصاف کے امیدوار کے وکیل نے کہا ہوسکتا ہے بیس پریذائیڈنگ افسران کو فرشتے لے گئے ہوں،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جواب الجواب میں اپیل کنندہ کے وکیل کے دلائل جاندار ہیں لیکن ہم نے آئین اور قانون کو دیکھ کر اپنا دائرہ اختیار استعمال کرنا ہے ، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے ، ہماری خواہش ہے کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کرائے ، اس معاملے میں حقائق عیاں ہیں،شہزاد شوکت کے دلائل مکمل ہوئے تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہم دس منٹ کا وقفہ کریں گے اور پھر واپس آکر فیصلہ سنادیں گے جس کے بعد عدالت نے اپنا مختصر فیصلہ سنا تے ہوئے الیکشن کمیشن کا ری پو لنگ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے ۔ادھر الیکشن کمیشن نے حلقے میں 10اپریل کو ہی پولنگ کا فیصلہ کرتے ہوئے سکیورٹی پلان کی منظور ی دیدی ، ضمنی انتخاب کے موقع پر فوج اور رینجرز تعینات کرنیکا فیصلہ کیا گیا ہے ، پولنگ سٹیشن کے باہر پہلے سرکل میں پولیس دوسرے میں رینجرز ، تیسرے میں پاک فوج کے اہلکار تعینات ہونگے ،این اے 75 ڈسکہ کے ریٹرننگ افسر نے سکیورٹی کے سخت انتظامات کی سفارش کی تھی،ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے فوج کی تعیناتی کا مراسلہ حکومت کوبھجوادیا گیا ہے ،چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے سیکرٹری الیکشن کمیشن کو فوری لاہور پہنچنے کی ہدایت کی ہے تاکہ انتخابات کیلئے انتظامات کو حتمی شکل دی جاسکے ،انہوں نے حکم دیا ہے کہ الیکشن کمیشن پنجاب کا دفتر و سیکرٹریٹ کے متعلقہ ونگز بھی ہفتے اور اتوار کو کھلے رکھے جائیں، تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کریں، این اے 75 میں ضمنی انتخاب صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ ہونا یقینی بنایا جائے ،ضمنی الیکشن کے دوران جو کوتاہیاں ہوئیں امید ہے کہ وہ دوبارہ نہ ہوں،الیکشن کمیشن نے پوسٹل بیلٹ پیپر کیلئے درخواستیں طلب کر لیں،الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازمین 6 اپریل تک پوسٹل بیلٹ پیپر کیلئے درخواستیں دے سکتے ہیں۔