کمشنر کراچی کو ہٹائیں ، انھیں کچھ معلوم نہیں ، کہاں سے امپورٹ کیا ؟چیف جسٹس
کمشنر کراچی اور ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ربڑ اسٹیمپ ، کل آپ سپریم کورٹ کی عمارت کسی کو دے دیں گے ، وزیراعلیٰ ہاؤس پر عمارت بنوا دیں گے :چیف جسٹس کے ریمارکس ، شہرقائد میں ناجائز تعمیرات پرسپریم کورٹ وزیراعلیٰ سندھ ،کمشنر کراچی اورڈی جی بلڈنگ پربرہم، نسلہ ٹاور کی لیز منسوخ،گرانا شروع کریں ، عدالت، غیر قانونی شادی ہال مسمار کرنیکاحکم
کراچی(سٹاف رپورٹر، نیوز ایجنسیاں )چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کراچی تجاوزات کیس میں وزیراعلیٰ،کمشنر کراچی اور ڈی جی بلڈنگ پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ کمشنر کراچی اور ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی محض ربڑ اسٹیمپ ہیں، انہیں تو کراچی کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں، افسوس سے ہمیں یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ کمشنر کراچی، ڈی جی ایس بی سی اے کو معلوم نہیں کتنے نیب ریفرنس ان کیخلاف بنیں گے ، انہیں کہاں سے درآمد کیا؟ انہیں ہٹا دیا جائے گا، دنیا کو معلوم ہے ایس بی سی اے کون چلا رہا ہے ، ایک مولوی کو ڈی جی ایس بی سی اے بنا دیا گیا۔ جمعرات کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزاراحمد،جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل لارجر بنچ نے شاہراہ قائدین اور شارع فیصل تجاوزات کیس کی سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت کی ۔ اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیں شاہراہ قائدین نالے پر قائم عمارت کا کیا ہوا؟ جس پر کمشنر کراچی نوید شیخ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے بتایا ہے کہ نالے پر عمارت نہیں ہے ، جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایس بی سی اے کو چھوڑیں، آپ کو براہ راست حکم کا مطلب ،آپ کو جواب دینا ہے ، پوری عمارت ہی نالے پر کھڑی ہے ۔ ایس بی سی اے والے خود ملے ہوئے ہیں، اچانک سے ایک پلاٹ نکلتا ہے اور کثیر المنزلہ عمارت بن جاتی ہے ۔ اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سلمان طالب الدین کا کہنا تھا کہ شاہراہ قائدین پر نسلہ ٹاور کے بلڈر کو بلا کر پوچھا جائے ۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہاں ایس بی سی اے بلڈر ہی کی تو ترجمانی کر رہی ہے ۔ 50سالہ پرانے علاقے میں اچانک کیسے ایک پلاٹ نکل آتا ہے ؟ کیسے اچانک لیز کردی جاتی ہے ؟ابھی نسلہ ٹاور کی لیز منسوخ کردیتے ہیں۔ عدالت نے ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ نرسری پر واقع نسلہ ٹاور کو گرانے کا کام شروع کریں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ جس نے لیز دی وہ بھی ذمہ دار ہے ۔ نسلہ ٹاور غیرقانونی بنا ہوا ہے ۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ڈی جی ایس بی سی اے کہاں ہیں؟ آپ ہمارے سامنے کیوں غلط بیانی کر رہے ہیں۔ایس بی سی اے بلڈروں کا ایجنٹ ہے ، کل سپریم کورٹ کی عمارت پر دعویٰ کردیں گے ۔ سپریم کورٹ کا لے آؤٹ پلان لے آئیں گے ۔ کل سپریم کورٹ کی عمارت کسی کو دے دیں یا وزیراعلیٰ ہاؤس پر کسی کو عمارت بنوا دیں گے آپ لوگ۔ ہمارے سامنے ایسی غلط باتیں مت کریں، سب معلوم ہے کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ کیوں مرتب نہیں کرتے ۔ اس موقع پر ڈی جی ایس بی سی اے نے عدالت کو بتایا کہ319منصوبے التوا کا شکار ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اے بلاک سندھی مسلم سوسائٹی میں ہے ہی نہیں، کیا ہم کراچی کے بارے میں نہیں جانتے ؟ یہ سب کچھ غیر قانونی ہو رہا ہے ۔رپورٹ دیں کہ عمارت کی زمین کی اصل پوزیشن کیا ہے ، کیا کراچی کی تاریخ بدل گئی، یہ زمین وفاقی حکومت کی زمین تھی، یہ وفاقی سٹی تھا، پتا نہیں کیا چل رہا ہے یہاں۔ ڈی جی ایس بی سی اے نے عدالت کو بتایا کہ مختار کار نے زمین الاٹ کی۔ جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کو مختار کاروں میں بانٹ دیاگیا کیا؟ کراچی میں مختار کار نہیں، کمشنر کراچی ہی ہوتا ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے شہری علاقوں کا ریونیو سے کیا تعلق؟ چیف جسٹس نے کہا اگر یہاں مختار کار شہر کو آپریٹ کر رہا ہے تو پھر شہر گیا۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایس بی سی اے شمس الدین سومرو سے مکالمے میں کہا کہ کس دنیا میں رہ رہے ہیں ؟ آپ کو شہر کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ چیف جسٹس نے کمشنر کراچی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کیا کراچی کی تاریخ پڑھی ہے ۔ یہاں ہمارا سماعت کرنا بے کار ہے ۔عدالت نے کمشنرکراچی کی تجاوزات سے متعلق رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ سمجھ رہے ہیں ہم ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ پر کام کریں گے ، یہ کیا رپورٹ ہے ، ہر جگہ لکھا ہے رپورٹ کا انتظار ہے ، چیف سیکرٹری صاحب ایسے افسر فارغ کریں۔ فیروز آباد میں مختار کار تعینات کرنے کے معاملے پر چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلیٰ سندھ کو کہیں یہاں آئیں اور وضاحت دیں۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو وضاحت کے لیے مہلت دے دی۔ چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ کراچی کو کیا سمجھ رکھا ہے ، آپ لوگوں نے ؟ اب آنکھیں کھولنے کا وقت آگیا۔ یہ دارالحکومت سٹی رہا ہے ، کیا بنا دیا اس شہر کو؟ ۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مکالمہ میں کہا کہ سارے ہی اس قسم کے لوگ رکھ لیے ہیں۔ یہ ہمارے لیے بڑی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ عام شہریوں کو کتنی مشکلات کر رہے ہوں گے ؟ وزیراعلیٰ سندھ سے رپورٹ مانگی تھی، کچھ ذکر ہی نہیں۔ وزیر اعلیٰ صاحب نے تو کہہ دیا سب اچھا ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ سے کہا تھا کہ بتائیں، شہر کی بہتری کیسے کر سکتے ہیں۔ ہمارے سامنے لمبی لمبی تمہیدیں باندھنے کی کیا ضرورت ہے ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمشنر کراچی صاحب، بتائیں کیا گریڈ ہے آپ کا؟ جس پر کمشنر کراچی کا کہنا تھا کہ وہ 21 گریڈ کے آفیسر ہیں ۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ایڈووکیٹ جنرل کو حکم دیا کمشنر کراچی کو ہٹائیں، انہیں کچھ معلوم نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کہاں ہیں۔ جس پر سینئر ممبر بورڈ آف ریونیونے بتایا انہیں گزشتہ روز ہی تعینات کیا گیا ہے ۔ جس پر چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ایک اور آگیا جسے کچھ معلوم نہیں ہوگا۔ آپ کی تعیناتی کہاں تھی پہلے ؟ جس پر سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کا کہنا تھا کہ وہ یونیورسٹی آف بورڈ میں تھے ابھی تبادلہ ہوا ہے ۔ سماعت کے موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ ریونیو ایکٹ کے تحت زمینوں کا ریکارڈ مختار کار کے پاس ہوتا ہے ۔ جس پر چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ہم نے ساری زندگی جتنی وکالت کی ہے یہ بات کبھی سامنے نہیں آئی۔ سندھی مسلم سوسائٹی تعلقہ نہیں ہے ۔ آپ قانون کو جانتے ہوئے اس کا دفاع کررہے ہیں؟ آپ عدالت کی معاونت کے بجائے فراڈ کا دفاع کررہے ہیں۔ کسی وکیل کو پتا نہیں کہ یہاں کراچی کے ساتھ کیا ہورہا ہے ۔ کل مختار کار کی جگہ کوئی اور دفتر کھل جائے گا، سب کچھ گڑ بڑ گھٹالہ ہوجائے گا۔دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ یہاں پر کئی ادارے کام کررہے ہیں اور سوسائٹیز الگ ہیں۔ جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ سوسائٹیز کے پاس سوسائٹیز کا ریکارڈ ہوتا ہے اور مختار کار کہاں سے آگیا؟ جس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان کا کہنا تھا کہ کنٹونمنٹ اور کے ایم سی کے قوانین الگ الگ ہیں۔ بہتر ہے ایک دفعہ تمام محکموں کے قوانین سامنے آجائیں تو اس کا جائزہ لیا جائے ۔ سوسائٹیز میں مختار کار کا کوئی کردار نہیں ہوتا بعد ازاں عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اور کمشنر کراچی کی مہلت کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ۔علاوہ ازیں جمعرات کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار کی سر براہی میں لارجر بنچ نے کورنگی کراسنگ پر شادی ہالز مسماری کے خلاف کورنگی شادی ہالز ایسوسی ایشن کی درخواست کی بھی سماعت کی ۔ اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل انور منصور خان انے عدالت کو آگاہ کیا کہ کورنگی کے شادی ہالز کمرشل پٹی پر قائم ہیں اور کمرشل ہونے سے شادی ہالز قانونی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ ایس بی سی اے کو ہمارے شادی ہالز گرانے سے روکا جائے ۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ ایس بی سی اے کو کس نے اختیار دیا کہ وہ رہائشی کو کمرشل میں تبدیل کریں۔ اس موقع پر چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے یہ سب جعلی دستاویزات ہیں ۔ ڈی جی ایس بی سی اے شمس الدین سومرو نے عدالت کو بتایا کہ کراچی بلڈنگ ٹاؤن پلاننگ ریگولیشن کے تحت رہائشی سے کمرشل کیا ہے ۔ جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایس بی سی اے کو ایسا کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ انور منصور خان نے کہا کہ انہیں ایک ہفتے کی مہلت دی جائے ،وہ عدالت کو مطمئن کر دیں گے ۔ سماعت کے دوران کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ 158 غیر قانونی شادی ہالز گرائے گئے ۔ اس موقع پر چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ کمشنر کراچی صاحب پورے کراچی میں شادی ہالز بن رہے ہیں۔ کسی بھی سٹرک پر جائیں شادی ہالز ملیں گے ۔بیشتر رفاعی پلاٹوں پر بنائے گئے ۔ دوران سماعت کمشنر کراچی نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں بعض ہالز بنے ہوئے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا تو آپ کمشنر کراچی ہیں، جائیں اور سب کو ختم کریں، عدالت نے کمشنر کراچی کو غیر قانونی شادی ہالز مسمار کرنے کی کارروائی جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت آج (جمعے ) تک کے لیے ملتوی کردی ۔دریں اثنا سپریم کورٹ نے مکانات گرائے جانے کے خلاف درخواستوں پرکمشنر کراچی، این جی اوز شہری اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو نوٹس جاری کردیئے ۔ جمعرات کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سر براہی میں لارجر بنچ نے کڈنی ہل پارک کی زد میں آنے والے گھروں کی مالکان کی درخواست کی سماعت کی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا بتائیں کڈنی ہل میں تجاوزات کی کیا پوزیشن ہے ؟ جس پر کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ 28 گھر متاثر ہو رہے ہیں ،جن کا تنازع ہے ۔ فاران اور اوور سیز سوسائٹی کے 28 گھر ہل پارک کی زمین میں آرہے ہیں۔ اس موقع پر مکینوں کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اوور سیز ہاؤسنگ سوسائٹی اور فاران سوسائٹی کے گھروں پر کراس نشان لگا دیے گئے ، ہمارے گھر کڈنی ہل پارک کا حصہ نہیں مگر گرائے جا رہے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ کڈنی ہل کی باؤنڈری پیچھے کرکے گھر کے پلاٹ نکالے گئے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ بتائیں، ان سوسائٹیز کے پلاٹ کہاں سے آگئے ۔ آپ مطمئن نہیں کر پا رہے کہ پلاٹس پارک سے الگ ہیں۔ سماعت کے دوران امبر علی نے کہا کہ دونوں سوسائٹیز کے مکینوں نے اپنے گھروں میں توسیع کی۔ کل 62 ایکڑ اراضی سے 58 ایکٹ باقی ہے ۔ جن لوگوں نے گھروں میں توسیع کی انہیں ختم کرنے کا حکم دیا جائے ۔ اس موقع پر خواجہ شمس السلام ایڈووکیٹ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کڈنی ہل پارک میں اچانک مزار بنا دیا گیا ہے ،جس پر چیف جسٹس نے کمشنر کراچی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ، بتائیں کیسے مزار بنا دیا گیا ۔ مکینوں کے وکیل نے کہا کہ ہمیں معاوضہ دیں، 40، 45 سال پہلے گھر خریدے ، نقشے موجود ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ جنہوں نے گھر خریدے ، انہیں سب معلوم تھا، میں کہیں جگہ لوں گا تو دیکھوں گا تو ضرور، جنہوں نے گھر خریدے وہ اتنے معصوم نہیں۔ عدالت نے ہل پارک تجاوزات کیس میں مکینوں کی فریقین بننے کی درخواست مسترد کردی۔کمشنر کراچی نے کہا کہ تیجوری ہائٹس اور کریک سائیڈ شاپنگ سینٹر کو عدالتی حکم پر سیل کر دیا، رائیل پارک میں سب ٹاور گرا دیئے ، باغ ابن قاسم میں تعمیرات کو منہدم کردیا گیا۔بعد ازاں عدالت نے کمشنر کراچی، این جی اوز شہری اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ ایک اور سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کسی شخص کو محض مقدمے میں نامزد ہونے پر گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔سپریم کورٹ نے شیخوپورہ میں تین افراد کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ جاری کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے تفصیلی فیصلہ تحریر کرتے ہوئے قرار دیا کہ کسی شخص کو محض مقدمے میں نامزد ہونے پر گرفتار نہیں کیا جاسکتا،عدالتیں گرفتاری سے قبل ضمانت کی درخواست پر فیصلے کیلئے آزادی،تکریم اور شفاف ٹرائل کو مد نظر رکھیں،گرفتاری سے قبل ضمانت کا عدالتی اختیار پولیس پر چیک کی حیثیت رکھتا ہے ، پولیس کی بدنیتی اور بے قصور ہونے پر نامزد شخص قبل ازگرفتاری ضمانت کا حقدار ہے ۔