قومی مفاہمت ہی مسائل کا واحد حل ، اداروں اور ہم سب کو مل کر چلنا چاہیے ، شہبازشریف
معیشت کی مضبوطی اور گورننس کے مسائل پر کوئی سیاست نہیں ہونی چاہئے ، ملک نے آگے جانا ہے تو مفادات سے بالا تر ہو کر سوچنا ہو گا ،کورونا پر جتناہوسکا تعاون کرینگے ، مجھے کیوں ٹارگٹ کیا ، کیوں جیل میں ڈالا ؟، انتقام کا راستہ استحکام کی جانب نہیں جاتا،الزام تراشیوں کے باوجو د لوگ ہماری خدمات کو یا د کرتے ہیں ، حکومتی نااہلی پر کو ئی شک رہ گیا ؟،حکومتیں نعروں ‘ دعوئوں سے نہیں چلتیں ،دن رات ایک کرنا پڑتا ،انتہا پسندی سے نجات نواز شریف کا ویژن تھا :انٹرویو
لاہور (سلمان غنی) مسلم لیگ ن کے صدر، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اپنی جیل یاترا، نیب کے مقدمات اور دیگر صعوبتوں کے باوجود قومی مفاہمت کو ہی ملک کو درپیش گھمبیر صورتحال اور بے یقینی کے حالات سے نکلنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت نے ملکی کشتی کو جس منجھدار میں لاکھڑا کیا ہے اسے مل کر اور قومی جذبہ کو بروئے کار لا کر ہی پار لگایا جا سکتا ہے ۔ یہ تاریخ کی پہلی حکومت ہے جس نے ترقی کی شرح کو منفی میں لا کر عوام کو روٹی دال کے لالے ڈال دئیے اور آج مسائل زدہ’ مہنگائی زدہ عوام کو امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی اور پاکستان کے نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں پکڑے ہیجان کی کیفیت میں مبتلا ہیں، انہیں روزگار کی کوئی امید اور آس نہیں، جمہوریت ڈ لیور کرنے اور لوگوں کی امیدوں اور توقعات پر پورا اترنے کا نام ہے اور جو سسٹم ڈ لیور نہ کر رہا ہو اس میں کوئی بڑی خرابی ضرور موجود ہوتی ہے ۔ وہ گزشتہ روز دنیا نیوز سے اپنی رہائشگاہ پر خصوصی بات چیت کر رہے تھے ۔ میاں شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہم نے حکومتوں کو ذاتی اور سیاسی مفادات کا ذریعہ بنانے کی بجائے قوم و ملک کی خدمت کا ذریعہ بنایا۔ تعمیر و ترقی کا عمل، سی پیک کا منصوبہ اور مضبوط و موثر مواصلاتی سسٹم ہماری حکومت کے ہی کارنامے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم دن رات محنت کر کے ممکنہ وسائل کی فراہمی کے ذریعہ وافر اور سستی بجلی نہ بناتے تو آج کے درجہ حرارت اور موسمی شدت میں کیا ہوتا ،لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ بجلی کی اس پیداوار کو بھی ہمارا جرم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جس پر ہمیں فخر ہے ۔ شہباز شریف نے کہا کہ باوجود سخت حالات’ انتقامی مقدمات اور جیل کی صعوبتیں کاٹنے کے میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ قوم و ملک کے وسیع تر مفاد میں اداروں کو اور ہم سب کو مل کر چلنا چاہئے ۔ ملکی دفاع’ قومی مفادات’ معیشت کی مضبوطی اور گورننس کے مسائل پر کوئی سیاست نہیں ہونی چاہئے ۔ ملک نے آگے کی طرف جانا ہے تو ہمیں بھی ا پنے مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنا سمجھنا اور ملناہوگا، ہم تبھی پاکستان کی نیا کو پار لگا سکتے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے ایک سوال پر کہا کہ ہاں میں مفاہمت کا قائل رہا ہوں اور اب بھی ہوں اس لئے کہ اس کے سوا ہمارے پاس چارہ نہیں۔ میں اگر مفاہمت کی بات کرتا رہا اور مل کر چلنے کا عزم دہراتا رہا تو مجھے ٹارگٹ کیا گیا، میری قومی خدمات کا صلہ یہ دیا گیا۔ مجھے اس سے بھی غرض نہیں لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ ملکی خدمت کرنے والوں میں سیاستدان ہوں’ افسران ہوں یا دیگر طبقات کے نمایاں افراد’ انہیں ٹارگٹ کرنے ’ سزا دینے کے عمل سے آپ اپنی نئی نسل کو کیا پیغام اور سبق دے رہے ہیں۔ میں نے ہمیشہ اس جذبہ سے کام کیا ہے کہ مجھے خدا اور عوام کی عدالت میں سرخرو ہونا ہے ۔ میں نے عوام کے خون پسینے کی پائی پائی کو ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا۔ کیا میرے اطمینان کیلئے یہ بات کافی نہیں کہ ہمارے خلاف الزام تراشی اور پراپیگنڈ ا کے باوجود لوگ ہماری حکومت کو سراہتے اور ہمارے کارہائے نمایاں پر شکریہ ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ شہباز شریف نے ایک اور سوال پر کہا کہ جیل کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہوتا، یہاں لوگوں کو توڑنے کیلئے بھیجا جاتا ہے کہ وہ جیل کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کی بجائے سرنڈر کر جائیں گے لیکن میں اس لئے ثابت قدم رہا کہ مجھے خدا کی ذات پر بھرو سا تھا۔ میرا ضمیر مطمئن رہا اور مجھے یہ پتا تھا کہ مجھے کس چیز کی سزا مل رہی ہے ۔ مجھ پر لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات کا کوئی سرپیر نہیں’ نیب کا میرے حوالہ سے کوئی کیس نہیں۔ مجھے ٹارگٹ کیوں کیا گیا’ کیونکر جیل میں ڈالا گیا یہ کس کی خواہش کی تکمیل ہوئی ہے ’ انتقام کا راستہ استحکام کی جانب نہیں جاتا۔انہوں نے ایک سوال پر اپنے بڑے بھائی نواز شریف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے میرے بڑے بھائی کے طور پر نہیں بلکہ ملک و قوم کے بڑے کے طور پر ہمیشہ بڑے فیصلے لئے ، انہیں جن ایشوز کی بنا پر موردالزام ٹھہرایا جاتا رہا کیا آج انہی تحفظات پر وہ سب کچھ نہیں کیا جا رہا جو وہ کہتے رہے ،یہ نواز شریف کا ویژن ہی تھا کہ ہمیں آگے جانا ہے تو ہمیں انتہا پسندی اور شدت پسندی کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے ۔ یہ انہی کی سوچ اور اپروچ کا حاصل تھا کہ دنیا میں پاکستان کے وقار کیلئے ہمیں بھیک مانگنے اور قرضوں پر انحصار کرنے کی بجائے ترقی کی راہ اپنانی ہے ۔ خدا کے فضل و کرم سے پاکستان کے اندر اتنے وسائل ہیں کہ ہم انہیں بروئے کار لا کر دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی صفوں میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ہماری قوم اور نوجوان نسل میں اتنا جذبہ ہے کہ ہم پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کر سکتے ہیں لیکن اس کیلئے ہمیں کچھ بنیادی فیصلے کرنا ہوں گے اور اپنے اپنے مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دینا ہوگی۔ شہباز شریف نے کہا کہ میں جیل کی کال کوٹھڑیوں کا سامنا کر کے آیا ہوں تو بیماری کے باوجود میرا عزم اور حوصلہ کبھی متزلزل نہیں ہوا لیکن میرے دل میں بھی بہت سے سوالات ہیں کہ آخر آج کی حکومت کیونکر ڈ لیور نہیں کر پائی۔ ان کی نااہلی اور ناکامی پر اب بھی کسی کو شک ہے ، حکومتیں عوام کے مسائل اور مشکلات کے حل کا ذریعہ ہوتی ہیں نہ کہ ان کی زندگیوں سے اطمینان چھیننے آتی ہیں۔ آخر کیوں گورننس کا خواب حقیقت نہ بن سکا۔ کہاں گئیں وہ انتظامی اصلاحات جن کے راگ آلاپے جاتے تھے ۔ کہاں گئے وہ ایک کروڑ روزگار کے مواقع’ کہاں گئے کرپشن اور لوٹ مار کے دعوے ’ کہاں گئے وہ مہنگائی زدہ عوام کیلئے ریلیف کے وعدے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومتیں نعروں’ وعدوں اور دعوئوں سے نہیں چلتیں۔ اس کیلئے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے ۔ اس کیلئے خود کو خدا اور عوام کے سامنے جوابدہ بنانا ہوتا ہے ۔ شہباز شریف نے کورونا کے رجحان کو خطرناک اور تشویشناک قرار دیا اور کہا کہ ایسی صورتحال میں ہم نہیں چاہیں گے کہ اس ایشو پر سیاست ہو لیکن حکومت کو اپنی ذمہ داری پور ی کرنا ہوگی۔ احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد کرانے کیلئے قوم کے اندر تحریک پیدا کرنا پڑے گی۔ قوم اور ملک پر آنے والے امتحان اور سانحات اور حادثات پر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہئے ۔ کورونا کی وبا اور بلا انسانیت کی بقا کا مسئلہ ہے ، اس کیلئے اس جذبہ سے کام کرنا ہوگا اور ہم جو ممکنہ تعاون کر سکے کریں گے ۔ انہوں نے ایک اور سوال پرکہا کہ ہمیں یوم مئی کے موقع پر ان محنت کشوں کی حالت زار پر غور کرنا ہے ، بدترین مہنگائی اور معاشی تباہی نے ان کی زندگیوں کو تلخ کر دیا ہے ، وہ دن بھر پسینہ بہانے کے باوجود اتنا بھی کما نہیں پاتے کہ ان کا دو وقت کیلئے چولہا جل سکے ۔ وہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔ اولاد سب کیلئے ایک جیسی ہی ہوتی ہے اور اگر ہم مزدور کو خوشحال نہیں بنا پائیں گے تو معاشرے میں استحکام نہیں آ پائے گا۔ آج وہ ہماری زیادہ ہمدردی اور توجہ کے مستحق ہیں۔ کورونا کی صورتحال نے ان کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے اورمعاشرے کو ان کے ساتھ کھڑا ہونا ہے ، ن لیگ کے صدر شہباز شریف نے کراچی کے ضمنی انتخابات کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نہیں سمجھ پایا کہ آخر دوبارہ گنتی پر کیا اعتراض ہے ۔ خود الیکشن کمیشن کے رولز اس کی اجازت دیتے ہیں۔ اچھی بات ہے کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کی درخواست قبول کی ہے ۔ دودھ کا دودھ’ پانی کا پانی ہونا چاہیے اور عوام کی تائید و حمایت پر کسی کو شب خون مارنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے ۔