موبائل فون سے استفادہ کرنیوالے 93 فیصد، ذاتی گھر رکھنے والوں کی تعداد میں کمی

موبائل فون سے استفادہ کرنیوالے 93 فیصد، ذاتی گھر رکھنے والوں کی تعداد میں کمی

سکول سے باہر بچوں کی تعداد میں کمی، غذائی عدم تحفظ کا شکار آبادی 16فیصد، غریب گھرانوں کی تعداد بڑھ کر 11.94فیصد ، 45.52فیصد موبائل فون کے مالک، فلٹریشن سے پانی لینے والوں کی تعداد 4فیصد سے زائد :5سالہ سوشل، لِونگ سروے

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) پاکستان سوشل اینڈ لونگ سٹینڈرڈ سروے کے نتائج کا اعلان، 2014-15سے 2019-20کے دوران انتہائی کسمپرسی کے شکار گھرانوں کی تعداد 7.24فیصد سے 11.94فیصد ہو گئی، موبائل فون سے استفادہ کرنیوالے 93فیصد، ذاتی گھر رکھنے والوں کی شرح 84سے کم ہو کر 81فیصد ہوگئی۔ پاکستان بیورو آف شماریات کے سروے کے مطابق معاشی طور پر انتہائی کسمپرسی کے شکار گھرانوں کی تعداد 2014-15میں مجموعی آبادی کا7.24فیصد سے بڑھ کر2019-20میں11.94گھرانوں تک پہنچ گئی، غذائی عدم تحفظ کا شکار آبادی کی شرح16فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔ وہ گھرانے جن کی معاشی حالت میں فرق نہیں پڑا ان کی شرح44.08فیصد سے بڑھ کر45.73فیصد ہے ، معاشی صورتحال میں بہتری والے گھرانوں کی شرح 16.48فیصد سے کم ہوکر12.7فیصد تک آ گئی ہے ۔ پنجاب میں تعداد6.58فیصد سے بڑھ کر12.11فیصد، سندھ میں 5.98فیصد سے بڑھ کر10.66فیصد، خیبر پختونخوا میں 11.69فیصد سے کم ہوکر10.80فیصد، بلوچستان میں11.49فیصد سے بڑھ کر19.60فیصد تک جا پہنچی ہے ۔ پائپ سے پانی حاصل کرنے والی آبادی کی شرح 26.7فیصد سے کم ہوکر22.3فیصد، ہینڈ پمپ سے پانی حاصل کرنے والوں کی تعداد26.4فیصد سے کم ہوکر23.3فیصد، موٹر پمپ سے پانی حاصل کرنے والوں کی شرح32.5فیصد سے کم ہوکر30فیصد، فلٹریشن پلانٹ سے پانی حاصل کرنے والوں کی تعداد 3فیصد سے بڑھ کر4.3فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔ گیس پر کھانا پکانے والوں کی تعداد41.34فیصد سے بڑھ کر48.24فیصد، بجلی کی سہولت والی آبادی کی شرح93.45فیصد سے کم ہوکر90.91فیصد، صاف ایندھن استعمال کرنے والوں کی تعداد 41.70فیصد سے کم ہوکر37.30فیصد، ذاتی گھر رکھنے والوں کی تعداد84.09فیصد سے کم ہوکر81.78فیصد ہو گئی۔ شہروں میں 73.23فیصد سے کم ہوکر70.13فیصد، دیہات میں شرح90.19فیصد سے کم ہوکر89.12فیصد ہو گئی۔ بنیادی صحت مرکزکی سہولت 57.40فیصد سے بڑھ کر67فیصد ہو گئی ، 86فیصد کو بہبود آبادی، 97فیصد کو سکول، 97فیصد کو ہسپتال، 96فیصد دیہی آبادی کو زرعی توسیع کی سہولیات دستیاب ہیں۔ شرح خواندگی60فیصد سے بڑھ کر70فیصد تک پہنچ گئی۔ پنجاب میں 64فیصد سے بڑھ کر72فیصد،سندھ میں58فیصد سے بڑھ کر68فیصد، خیبر پختونخوا میں71فیصد سے بڑھ کر72فیصد اور بلوچستان میں شرح خواندگی 61فیصد پر منجمد ہے ۔ سکول سے باہر بچوں کی تعداد32فیصد سے کم ہوکر27فیصد پر آ گئی۔ پنجاب میں تعداد24فیصد سے کم ہوکر22فیصد، سندھ میں44فیصد سے کم ہوکر39فیصد، خیبر پختونخوا میں30فیصد سے کم ہوکر20فیصد، بلوچستان میں 47فیصد سے کم ہوکر38فیصد ہو گئی ہے ۔ 15سال تک عمر کی بچیوں کی شرح خواندگی84فیصد سے بڑھ کر89فیصد ہوگئی۔ موبائل فون کی سہولت سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد93فیصد تک جا پہنچی، شہری آبادی میں96.48 دیہاتی آبادی میں 91.06فیصد ہے ۔ انٹر نیٹ کی سہولت استعمال کرنے والوں کی تعداد 32.74فیصد تک پہنچ گئی۔ موبائل فون کی ملکیت رکھنے والوں کی شرح45.52فیصد ہے ، شہری آبادی میں 65.02فیصد، دیہات میں25.19فیصد ہے ۔ پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے پر دسترس رکھنے والوں کی شرح62.69فیصد ہے ۔ بنیادی 7بیماریوں سے بچاؤ کے ٹیکے اور حفاظتی قطرے پلانے کی سہولت والوں کی شرح 70فیصد پر برقرار رہی۔ تربیت یافتہ دائی کے ذریعے بچوں کی پیدائش کی شرح68فیصد سے بڑھ کر82فیصد ہو گئی۔ پنجاب میں شرح70فیصد سے بڑھ کر82فیصد، سندھ میں 70فیصد سے بڑھ کر83فیصد، خیبر پختونخوا میں66فیصد سے بڑھ کر84فیصد، بلوچستان میں 52فیصد سے بڑھ کر71فیصد پر پہنچ گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں