انارکلی بازار میں دھماکا، بچے سمیت 3جاں بحق، 29 زخمی

انارکلی بازار میں دھماکا، بچے سمیت 3جاں بحق، 29 زخمی

لاہور (خبر نگار سے ، دنیا نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک) صوبائی دارالحکومت کے مصروف ترین بازار انارکلی میں دھماکے سے 3 افراد جاں بحق، 29 زخمی ہو گئے ، جن میں سے 4 کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے ۔

دھماکے کے بعد آگ لگ گئی، آواز دور تک سنی گئی، ڈیڑھ فٹ گڑھا پڑ گیا، عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے ، 8 موٹر سائیکلیں تباہ ہو گئیں، ابتدا میں پولیس اور دیگر اداروں کی جانب سے دھماکے کو سلنڈر دھماکا کہا جاتا رہا مگر تفتیش کے بعد بات سامنے آئی کہ دھماکاپلانٹڈ ڈیوائس کے ذریعے کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق سرکلر روڈ پر لوہاری چوک کی طرف سے انارکلی بازار کے آغاز پر نجی بینک کے قریب دکانوں کے پاس دن پونے دو بجے زوردار دھماکا ہوا۔

تھانہ انارکلی کی حدود میں آنے والے اس علاقے سے راستے پان منڈی اور اُردو بازار کو بھی جاتے ہیں، جب کہ یہاں رہائشی گھروں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے ، اس علاقے میں دیگر شہروں سے لوگ بھی بڑی  تعداد میں کاروبار کی غرض سے آتے ہیں، یہاں بہت سی دکانیں اور تجارتی مراکز کے علاوہ متعدد بینکوں کی برانچیں بھی موجود ہیں۔

دھماکے کے بعد علاقے میں کہرام مچ گیا، آگ نے سٹالز کو لپیٹ میں لے لیا ، ہر طرف آہ و بکا کی آوازیں آنے لگیں، زخمی زمین پر پڑے طبی امداد کے لیے لوگوں کو پکارتے رہے ۔ اطلاع ملنے پر حساس ادارے ، رینجرز، پولیس، سی ٹی ڈی، بم ڈسپوزل کا عملہ ا وردیگر امدادی ٹیمیں جائے وقوعہ پر پہنچیں۔ شہریوں نے فوری طور پر اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو طبی امداد کے لیے قریبی ہسپتال منتقل کرنا شروع کر دیا۔ حساس ادارے کی سپیشل آپریشنل ٹیموں نے جائے وقوعہ کو گھیرے میں لے کر کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو جائے وقوعہ پر جانے سے روک دیا اورجائے وقوعہ کو قناعتیں لگا کر بند کر دیا۔

بم ڈسپوزل سکواڈ، فرانزک ماہرین اور سی ٹی ڈی کے حکام نے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دئیے ۔ ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ پولیس نے ابتدا میں دوافراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی اور کہا جاں بحق 9 سالہ ابصار کا تعلق کراچی اور 31 سالہ رمضان کا فیروزوالا سے ہے ، بچے کا ماموں بھی دھماکے میں زخمی ہو گیا، بعد ازاں ایک اور زخمی یاسر ہسپتال میں دم توڑ گیا جس سے ہلاکتوں کی تعداد تین ہو گئی۔

زخمیوں میں 17 سالہ ارسلان، 45 سالہ انور، 18 سالہ شیر زمان، 50 سالہ جمیل، 22 سالہ عبداللہ، 37 سالہ سلمان احمد، 25 سالہ سمیع، 25 سالہ اعجاز، 31 سالہ سلمان، 30 سالہ حیدر سلطان، 54 سالہ ظہیر اقبال، 32 سالہ عدیم، 27 سالہ احمد، 30 سالہ بلال، 27 سالہ فیصل سعید، 33 سالہ طاہر حفیظ، 35 سالہ حیدر طاہر، 20 سالہ ارشد خالد، 42 سالہ اظہر، 50 سالہ زیور خان، 21 سالہ واحد، 42 سالہ فیصل بٹ، 45 سالہ نبیلہ بی بی، 25 سالہ نیشا سلمان، 22 سالہ ردا بی بی اور دیگر شامل ہیں۔ پولیس نے تصدیق کی کہ بم دھماکا پلانٹڈتھا۔ ایس ایس پی انویسٹی گیشن لاہور نے انکشاف کیا کہ دھماکے میں دیسی ساختہ مواد استعمال ہوا جو کہ ایک کلو سے زائد تھا ۔ عام خیال کے برعکس بارودی مواد موٹرسائیکل میں نصب نہیں تھا بلکہ یہ کنستر میں رکھ کر تیا رکیا گیا تھا۔

موقع سے سی ٹی ڈی نے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر لی ہے ۔پولیس کے مطابق بارودی مواد موٹر سائیکلوں کے قریب لفافوں میں چھپایا گیا تھا۔ سی ٹی ڈی تھانے میں پولیس کی مدعیت میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ ایف آئی آر میں 3 نامعلوم دہشت گردوں کا ذکر کیا گیا جو موٹر سائیکل پر آئے ۔ وقوعہ سے بال بیرنگ اور دیگر مواد ملا۔موٹر سائیکل اور دیگر سامان جل کر تباہ ہو گیا۔ نامعلوم بلوچ تنظیم نے ذمہ داری قبول کر لی۔

وزیراعظم نے انار کلی دھماکے کا نوٹس لیتے ہوئے پنجاب حکومت سے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ طلب کر لی اور کہا دھماکے کے ذمہ داروں کو فوری گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے ۔ صدر عارف علوی نے بھی بم دھماکے پر اظہار افسوس کیا۔ سردار عثمان بزدار نے کہا کہ انارکلی بازار لاہور کے پاس ہونے والا دھماکا امن و امان کی فضا کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کارروائی ہے ۔

دھماکے کے ذمہ دار قانون کی گرفت سے نہیں بچ پائیں گے ، ہم دھماکے میں جاں بحق افراد کے اہل خانہ کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں، زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی عثمان بزدار کو فون کر کے افسوس کا اظہار کیا اور کہا قوم دہشت گردوں کے خلاف متحد ہے ۔ ابتدائی رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کر دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق پلانٹڈ ڈیوائس کے ذریعے دھماکا ایک بج کر 40 منٹ پر ہوا۔ 1 بج کر 44 منٹ پر نامعلوم شخص کی کال آئی کہ نیو انارکلی میں دھماکا ہوا۔

بعض مشکوک افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن سے تحقیقات کی جا رہی ہے ۔ضلعی انتظامیہ کی رپورٹ کے مطابق چالیس افراد کو ریسکیو کیا گیا۔ دھماکے والی جگہ پر 14 ایمبولینس، چار موبائل ایمبولینس موجود رہیں، چار ریسکیووہیکل اور 3 فائر بریگیڈ گاڑیاں بھی آپریشنل رہیں۔

وزیراطلاعات فواد چودھری، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، وزیرریلوے اعظم خان سواتی، صدر (ق) لیگ چودھری شجاعت، سپیکر پنجاب اسمبلی پرویزالٰہی، وزیر آبی وسائل مونس الٰہی اور دیگر نے بھی دہشت گردی کے واقعہ کی مذمت کی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں