سپیکر نے مزید 43 استعفے منظور کر لیے،تحریک انصاف کی درخواست پر الیکشن کمیشن کا آج اجلاس :ڈی نوٹیفائی کرنے یانہ کرنیکا فیصلہ ہوگا

سپیکر نے   مزید   43  استعفے   منظور   کر   لیے،تحریک   انصاف   کی  درخواست   پر   الیکشن   کمیشن   کا   آج   اجلاس :ڈی   نوٹیفائی   کرنے   یانہ  کرنیکا   فیصلہ   ہوگا

اسلام آباد( وقائع نگار،سٹاف رپورٹر، خصوصی نیوز رپورٹر )سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے مزید 43اراکین کے استعفے منظور کرلیے ۔تحریک انصاف کی درخواست پر الیکشن کمیشن کا آج اجلاس ہو گا جس میں ڈی نوٹیفائی کرنے یا نہ کرنیکا فیصلہ ہو گا ۔

سپیکر قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور کر کے الیکشن کمیشن کو بھجوا دیئے ، سپیکر نے پی ٹی آئی کے اب تک 124 ارکان کے استعفے منظور کر لئے ۔جس کے بعد تحریک انصاف کے تمام اراکین کے استعفوں کی منظوری کا عمل مکمل ہو گیا ، باوثوق ذرائع کے مطابق اس وقت مزید 45 ارکان کے استعفے منظور ہونا باقی تھے جن میں سے گزشتہ روز سپیکر کی جانب سے 43 ارکان کے استعفے منظور کرنے کے بعد ڈی نوٹیفکیشن کے لیے الیکشن کمیشن کو بھجوا دیئ گئے جبکہ2 ا رکان جن میں سردار طالب نکئی اور پرنس محمد نواز الائی شامل ہیں کے استعفے منظور نہیں کیے گئے ، ان دونوں ارکان نے سپیکر کو چھٹی کی درخواست دی تھی جس کا سپیکر کی جانب سے باقاعدہ ایوان میں اعلان کیا گیا جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ ارکان استعفے دینے والوں میں شامل نہیں بلکہ وہ ایوان کے بدستور ممبر ہیں اور رخصت پر ہیں جس کی وجہ سے سپیکر کی جانب سے انھیں مستعفی اراکین میں شامل نہیں کیا گیا ۔ جن کے ناموں کی تفصیل آج الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے بعد جاری کر دی جائے گی ۔جن ارکان کے استعفے گزشتہ روز منظور کیے گئے ان میں صالح محمد،ملک انور تاج، محمد یعقوب شیخ، گل ظفرخان، جواد حسین ، طاہرصادق، ذوالفقار علی خان ، حاجی امتیاز چوہدری، ملک محمد احسان اللہ ٹوانہ ، غلام محمد لالی ، رضا نصراللہ ،محمد ریاض خان فتیانہ ، صاحبزادہ محمد محبوب سلطان ، غلام بی بی بھروانہ، صاحبزادہ محمد امیرسلطان ، راحت امان اللہ بھٹی، رائے محمد مرتضیٰ اقبال، فاروق اعظم ملک، جاوید اقبال وڑائچ، شیراز محمد خواجہ، سردار محمد خان لغاری، نصراللہ دریشک، منزہ حسن، سیمی بخاری، صوبیہ کمال خان، نوشین حامد، روبینہ جمیل، رخسانہ نوید، تاشفین صفدر، صائمہ ندیم، غزالہ سیفی، نصرت واحد، نفیسہ عنایت خٹک، ساجدہ ذوالفقار، نورین فاروق خان، نیاز احمد ،ملک احسن ٹوانہ ، عظمیٰ ریاض، ظلِ ہما،شاہین ناز، لال چند، شُنیلا رتھ، جے پر کاش،شامل ہیں ۔ تاہم جن کے نام گزشتہ روز ڈی نوٹیفکیشن کے لیے الیکشن کمیشن کو بھجوائے گئے سپیکر آفس کی جانب سے ان کی فہرست میڈیا کو جاری نہیں کی گئی ۔سپیکر نے پی ٹی آئی اراکین قومی اسمبلی کے استعفے چار مرحلوں میں منظور کئے ، پہلے میں 11، دوسرے اور تیسرے مرحلے میں 35، 35اور پھر 43 استعفے منظور کئے گئے ہیں۔

اس کے قبل سپیکر نے 35، 35 استعفے منظور کر کے الیکشن کمیشن کو بھجوائے جسے فوری طور عملدآمد کرتے ہوئے ڈی نو ٹیفائی کر دیا گیا تھا۔ گزشتہ 8 روزکے اندر113 استعفے منظور کئے ۔جن میں سے 70ارکان کو ڈی نو ٹیفائی کر دیا تھا تاہم 43 ممبران کو فوری ڈی نوٹیفائی نہیں کیا۔ادھر تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی چیف جسٹس سے ملاقات کیلئے سپریم کورٹ پہنچے ، اراکین کو ملاقات کی اجازت نہ مل سکی،رجسٹرار سپریم کورٹ نے بھی تحریک انصاف کے اراکین سے ملاقات سے انکار کر دیا، چیف جسٹس سے ملاقات کیلئے آنے والے اراکین قومی اسمبلی کی تعداد 8 تھی،پی ٹی آئی رہنما عامر ڈوگر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس سے اراکین کے استعفوں سے متعلق ملنا چاہتے ہیں، سپریم کورٹ نے اسمبلی واپس جانے کا کہا تو استعفے منظور کر لیے گئے ۔ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تحریک انصاف کے 43 اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے فیصلے نے الیکشن کمیشن کو مشکلات سے دو چار کر دیا جس کی بنا پر ان اراکین کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری نہ ہو سکا ۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن آج اپنے اجلاس میں ان استعفوں کو منظور کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گا ۔ذرائع کا کہنا تھا کہ اب جو ممبران استعفے واپس لینے کی درخواست چیف الیکشن کمشنر کو دے چکے ہیں جس کے بعد ان ارکان کے استعفوں کی منظوری کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا ، ان ارکان کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا فیصلہ آسان نہیں ۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے روزنامہ دنیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ہمارے 45ارکان نے الیکشن کمشنر کے پاس سپیکر کولکھے گئے خط کی کاپی جمع کرائی جس میں بعدازاں دو ارکان کا اور اضافہ ہو گیا اور اس طرح یہ تعداد47 ہو گئی۔

انھوں نے کہا کہ اب جو ارکان سپیکر کو یہ لکھ کر دے چکے ہیں کہ ان کے استعفے منظور نہ کیے جائیں ان کے استعفے منظور کر کے کیسے الیکشن کمیشن کو بھجوا د یئے ۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے پارٹی ارکان کے مزید استعفے منظور کئے جانے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ سپیکر نے راجا ریاض کو بچانے کے لیے یہ اقدام کیا۔ ٹوئٹر پر جاری بیان میں فواد نے کہا کہ محدود تعداد میں اسمبلی جانے کا مقصد راجا ریاض کو اپوزیشن لیڈرکے عہدے سے فارغ کرنا تھا، اس قومی اسمبلی کی کوئی نمائندہ حیثیت نہیں کہ اس میں واپس جائیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت شہباز حکومت 172 لوگوں کی حمایت کھو چکی ہے ، امپورٹڈ وزیراعظم حکومت بچانے کے لئے لوٹوں پر انحصار کر رہے ہیں جب کہ راجا ریاض کو بچانے کے لئے سپیکرکے اقدامات کے نتیجے میں 40 فیصد نشستیں خالی ہوچکی ہیں۔سابق وزیر کا کہنا تھا کہ ملک انتخابات کے مزید قریب آگیا ہے ، اس بحران کا واحد حل قومی انتخابات ہیں، حکومت کتنا عرصہ عوام سے کترائے گی، آخر فیصلہ لوگوں نے کرنا ہے اور فیصلہ ووٹ سے ہوگا۔مایوسی اور گھٹن پاکستان میں رقص کر ر ہے ہیں اور نیرو بانسری بجا رہے ہیں۔

لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے فواد چودھری نے عدلیہ سے معاملات میں مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے ملک میں بڑا سیاسی بحران پیدا ہوگیا ہے ۔ فواد نے کہا کہ 22 کروڑ کا ملک اس وقت بالکل لاوارث ہوگیا ہے جہاں روزانہ بے یقینی کے سائے ہیں جو لاد دئیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کابینہ اور وزیراعظم جس طریقے سے حکومت کر رہے ہیں، اس پر شرم آتی ہے ۔فواد نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی حیثیت اس حکومت میں ایک منشی کی ہوگئی ۔انہوں نے کہا کہ اداروں کا زوال اس حکومت میں دیکھا ہے اس سے پہلے نہیں دیکھا، الیکشن کمیشن کو فون کیا جاتا ہے اور الیکشن کمشنر کلرک کی طرح دستخط کرکے بھیج دیتا ہے ۔مزید الزامات عائد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو حکم دیا جاتا ہے کہ محسن نقوی وزیراعلیٰ ہوگا تو وہ دستخط کردیتا ہے ، اگر اتنے کمزور ہیں تو اپنے گھروں میں جا کر بیٹھ جائیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے بڑا صبر کیا ہے ، ہم نے بڑی احتیاط کی ہے لیکن یہ معاملہ چلنے کا نہیں ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں اس وقت 40 فیصد نشستیں خالی ہیں، یہ نشستیں اگر دوبارہ مکمل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو 17 سے 20 ارب روپے درکار ہیں۔حماد اظہر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر وہ اس حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے تو تحریک انصاف اقتدار میں آتے ساتھ جو پہلا کام کرے گی کہ ان لوگوں کو جو جمہوری عمل کے اندر مداخلت کریں گے اور لوگوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں گے تو ان کے خلاف آرٹیکل 6 کا مقدمہ کیا جائے گا اور غداری کا مقدمہ کریں گے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں