فیصلہ تسلیم مگر انکوائری کمیشن قانون کے مطابق،تحقیقات سے آڈیوز کی حقیقت کا پتہ چلتا:جسٹس فائز عیسیٰ

فیصلہ  تسلیم  مگر  انکوائری  کمیشن  قانون  کے  مطابق،تحقیقات  سے  آڈیوز  کی  حقیقت  کا  پتہ  چلتا:جسٹس  فائز عیسیٰ

اسلام آباد(سپیشل رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں آڈیو لیکس انکوائری کمیشن نے سپریم کورٹ کا حکم تسلیم کرتے ہوئے مزید کارروائی روک دی تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیشن قانون کے مطابق ہے۔

کہاں لکھا چیف جسٹس کی مشاورت ضروری،ہم آڈیوز کی تحقیقات کرتے تو پتہ چلتا کہ حقیقت کیا ہے ، یہ آڈیوز ریکارڈ کس نے کی، اس کا بھی بعد میں پتہ چلا لیتے ،آڈیو کی صداقت جانے بغیر کیا کسی کی زندگی تباہ کر دیں،اٹارنی جنرل اور گواہوں سے معذرت خواہ ہیں،سپریم کورٹ کورٹ کا جوڈیشل آرڈر ہے اس لئے مزید کام جاری نہیں رکھ سکتے ،بعد ازاں کمیشن نے سماعت کا تحریری حکم جاری کردیا، کمیشن کے تینوں ارکان کے دستخط  سے جاری ایک صفحے کے حکم نامے میں کہا گیا کہ آڈیو لیکس کمیشن کا دوسرا اجلاس ختم ہو گیا ہے ،اٹارنی جنرل نے گزشتہ روز کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جوڈیشل کمیشن کو بذریعہ سیکرٹری کل کے کیس میں فریق بنایا گیا، عدالتی فیصلے کے بعد جوڈیشل کمیشن کی کارروائی ملتوی کی جاتی ہے ،قبل ازیں آڈیو لیکشن انکوائری کمیشن کا اجلاس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت ہوا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نعیم افغان شریک ہوئے ، اٹارنی جنرل منصور عثمان کمیشن کے سامنے پیش ہوئے ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا سنا ہے کہ عدالت نے کمیشن سے متعلق کوئی حکم نامہ جاری کیا ہے ، ہمیں اس حکم نامے کی کاپی فراہم کریں،اٹارنی جنرل نے کاپی عدالت کو فراہم کردی،کمیشن نے اٹارنی جنرل کو پچھلے روز کا عدالتی حکم پڑھنے کی ہدایت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ انکوائری کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں تھا تو کام سے کیسے روک دیا، اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ بھی کل سپریم کورٹ میں موجود تھے ؟اٹارنی جنرل نے ہاں میں جواب دیا جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو عدالت کی طرف سے نوٹس جاری کیا گیا تھا ؟جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے ٹیلی فون پر عدالت پیش ہونے کا کہا گیا تھا ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ قواعد کے مطابق فریقین کو پیشگی نوٹسز جاری کرنا ہوتے ہیں،سپریم کورٹ رولز کے مطابق فریقین کو سن کر اس کے بعد کوئی حکم جاری کیا جاتا ہے ، کمیشن کو کسی بھی درخواست گزار نے نوٹس نہیں بھیجاسپریم کورٹ کے رولز ر پر عملدرآمد لازم ہے ، نوٹس کے حوالے سے بیان حلفی بھی عدالت میں دیا جاتا ہے جبکہ درخواست گزاروں میں سے کوئی بھی آج کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوا ،باہر پریس کانفرنس کی جاتی ہے لیکن ہمارے سامنے پیش کوئی نہیں ہوا نہ عابد زبیری آئے نہ ان کے وکیل شعیب شاہین نے پیش ہونے کی زحمت کی ، اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ نے عدالت کو آگاہ نہیں کیا کہ 209 کی کارروائی کمیشن نہیں کر رہا ؟ ابھی وہ سٹیج ہی نہیں آئی تھی نہ ہم وہ کر رہے تھے ، ایک گواہ اس وقت موجود ہیں، اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عبدالقیوم صدیقی کو روسٹرم پر بلا لیا اور ان سے پوچھا کہ آپ کا کیا نام ہے ؟گواہ نے بتایا کہ میرا نام عبدالقیوم ہے ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہو سکتا ہے انہیں کمیشن کی کارروائی پر کوئی اعتراض نہ ہو، ان کے دوسرے فریق نے ہمیں درخواست بھیجی اور کہا کہ وہ میڈیکل چیک اپ کیلئے لاہور میں ہیں، انہوں نے کہا جب لاہور آئیں تو ان کا بیان بھی لے لیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کو کل ہمارے حکم کے بارے میں آگاہ کیا جانا چاہئے تھا۔

حیران ہوں آپ نے کل ان نکات کو رد نہیں کیا،تھوڑا بہت آئین میں بھی جانتا ہوں، آپ نے کل عدالت کو بتایا کیوں نہیں کہ ان کے اعتراضات والے نکات کی ہم پہلے ہی وضاحت کر چکے ،شعیب شاہین صاحب نے میڈیا پر تقریریں کر دیں لیکن یہاں آنے کی زحمت نہیں کی، کیا انہیں آکر بتانا نہیں تھا کہ سٹے ہو گیا،شعیب شاہین نے پچھلے روز کہا کسی کی بھی آڈیو آئے اس جج کا معاملہ سیدھا سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دو، درجنوں ایسی شکایات آتی ہیں تو کیا سب سپریم جوڈیشل کمیشن بھیج دیا کریں؟آڈیو کی صداقت جانے بغیر کیا کسی کی زندگی تباہ کر دیں، پہلے آڈیو کی اصلیت طے کرنا ضرروی ہے کس نے آڈیو ریکارڈ کی وہ بعد کی بات ہے ، پرائیویسی ہمیشہ گھر کی ہوتی ہے ، کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جاسکتا، باہر سڑکوں پر جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں، کیا یہ بھی پرائیویسی کے خلاف ہیں؟ کیا بینک کی سی سی ٹی وی کیمرے میں قتل کی واردات آجائے تو کیا فوٹیج استعمال نہیں ہوسکتی؟شعیب شاہین روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر وکلا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ہمیں قانون سکھانے آگئے ہیں، کوئی بات نہیں سکھائیں ہم تو روزانہ قانون سیکھتے رہتے ہیں، سپریم کورٹ کے کل کے تحریری حکمنامے میں میرے کیس کا بھی ذکر ہوا، میرے کیس کے حقائق یکسر مختلف تھے ، میری اہلیہ نے جائیدادوں کی ملکیت سے انکار نہیں کیا تھا، میری اہلیہ کا کیس یہ تھا جو شخص ہمارے خلاف سپریم کورٹ میں کھڑا ہے ، اسے کسی نے کھڑا کیا ہے ،اس بارے کم از کم جسٹس منصور علی شاہ کا فیصلہ پورا تو پڑھنا چاہئے ، دوسروں کی عزت ہے تو ہماری بھی عزت ہونی چاہئے ، زیادہ نہیں کم از کم تھوڑی بہت تو ہماری عزت ہونی چاہئے ،حکومت نے مجھے ایک ٹاسک دیا اس لئے ہم بیٹھے ، ججوں کے حلف میں لکھا ہے فرائض آئین و قانون کے تحت ادا کروں گا، یہ انکوائری کمیشن ایک قانون کے تحت بنا ہے ، کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت یہ کمیشن بنایا گیا، ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں،فاضل جج سانحہ کوئٹہ انکوائری کمیشن کا ذکر کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے اور کہا کہ ہم آئین و قانون کے تابع ہیں، ہمیں کئی بار بہت تکلیف دہ قسم کے ٹاسک ملتے ہیں، ہم وہ ٹاسک انجوائے نہیں کر رہے ہوتے مگر حلف کے تحت کرنے کے پابند ہیں، حلف کے تحت اس کی اجازت نہ ہوتی تو معذرت کر کے چلا گیا ہوتا، ہمیں کیا پڑی تھی، ہمیں اضافی کام کا کچھ نہیں ملتا، ہمیں اس درد ناک واقعے جیسے معاملات کی تحقیقات کرنا پڑتی ہیں، ایک طرف پرائیویسی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنی آڈیوز پر ٹاک شو میں بیٹھے ہیں، ہم ٹاک شو میں جواب تو نہیں دے سکتے ، اب شام کو ٹاک شوز میں کہا جائے گا کہ ہم آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، کیا قانون اور اپنے حلف کے تحت مشکل ٹاسک سے انکار کر سکتے ہیں ؟ یہ ذمہ داری ہمارے لئے ذہنی تکلیف کا باعث ہو سکتی ہے ، سپریم کورٹ کے فیصلے ہر ایک پر لازم ہیں۔

حیران ہوں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سپریم کورٹ پہ لاگو نہیں ہوتے ،وکیل اپنا کوڈ آف کنڈکٹ بھی پڑھیں، ایک وکیل موکل سے جج کے نام پر دو لاکھ مانگ لے ، کیا ایسی گفتگو پر بھی پرائیویسی کے استحقاق کا اطلاق ہوگا؟بطور وکیل پریکٹس کرتے تھے ، ہم حکم امتناع لیکر متعلقہ عدالت کو جاکر آگاہ کرتے تھے ، وکیل خود اپنے کوڈ پر عمل نہیں کرتے ، ہمیں قانون سکھانے بیٹھ جاتے ہیں، حیران ہوں کہ سچ کو کیوں سامنے آنے سے روکا جا رہا ہے ، اعتراض کمیشن میں آ کر بھی کیا جا سکتا تھا، واضح کیا تھا کسی کے حقوق متاثر کرینگے نہ کسی کو ملزم بنائیں گے ، قرآن شریف کے مطابق سچ ہمیشہ جھوٹ کو مٹا دیتا ہے ، کمیشن کے ایک رکن کوئٹہ سے صبح نو بجے پہنچے ہیں، کمیشن کو سٹے آرڈر سے آگاہ کیا گیا نہ پہلے نوٹس دیا گیا، کمیشن کو بتایا جاتا تو جج صاحب کو کوئٹہ سے نہ بلاتے ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں پر ہماری اور عدالت میں ان کی بات کرتے ہیں،اٹارنی جنرل صاحب! آپ نے عدالت کو قانونی نکات کیوں نہیں بتائے ؟ لارجر بینچ میں چیف جسٹس پر اعتراض کیوں کیا تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحقیق طلب ایک آڈیو چیف جسٹس کی خوشدامن سے متعلق ہے ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انکوائری کمیشن ایکٹ میں کہاں لکھا ہے کہ چیف جسٹس کی مشاورت ضروری ہے ؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون میں چیف جسٹس سے مشاورت کی پابندی نہیں ہے ،جسٹس قاضی نے کہاکہ عدالت نے اپنے آرڈر میں لکھا کہ حکومت نے یکطرفہ کارروائی کی ہے ، حکومت ہمیشہ یکطرفہ ہی چلتی ہے ، عدالتی آرڈر میں تو ہائیکورٹ کے ججز کی کمیشن میں شمولیت پر بھی اعتراض کیا گیا،وفاقیت کا تقاضا ہی یہ ہے کہ صوبے آزاد اور خودمختار ہوں، عدالت کے ایسے ریمارکس وفاقیت کو تباہ کردیں گے ، ہم نے قانون پر چلنا ہے ، روایت پر نہیں، سپریم کورٹ ہائیکورٹ تو کیا ضلعی عدلیہ کی بھی مانیٹرنگ نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ صرف ہائی کورٹ کے فیصلے کی قانونی حیثیت کا تعین کر سکتی ہے ،ٹاک شو میں وکیل صاحب سے طے شدہ سوالات کئے گئے ، ٹاک شو میں آڈیو مان لی تو استحقاق ختم ہوگیا، ہو سکتا ہے آڈیو قیوم صدیقی اور وکیل صاحب نے خود لیک کی ہو،کوئی اپنی گفتگو خود پبلک کردے تو بعد میں اعتراض نہیں کر سکتا، تمام لوگوں سے پوچھیں گے کہ انہوں نے آڈیو خود تو لیک نہیں کی، سمجھ نہیں آتا کہ شعبہ قانون کو ہو کیا گیا ہے ، سب سے آسان کام ہے کہ جج پر الزام لگا دو، ججز کے پاس فوج ہوتی نہ پولیس صرف اخلاقی اتھارٹی ہوتی ہے ، ہم مزید آگے نہیں بڑھ سکتے ، کمیشن کی مزید کارروائی نہیں کررہے ، گواہان سے معذرت خواہ ہوں ہم کارروائی آگے نہیں چلا سکتے ، اٹارنی جنرل صاحب ہم معذرت خواہ ہیں، سپریم کورٹ کا جوڈیشل آرڈر ہے اس لئے مزید کام جاری نہیں رکھ سکتے ، سماعت کا آرڈر جاری کردیں گے ، جو کہ بعد ازاں جاری کردیا گیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں