تحریک انصاف کا داخلی بحران اور مذاکرات کی پیشکش

تحریک انصاف کا داخلی  بحران اور مذاکرات کی پیشکش

(تجزیہ:سلمان غنی) 9مئی کے واقعات کے ردعمل میں تحریک انصاف چھوڑنے والوں کی تعداد میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی دفعہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ پارٹی میں جو جتنی بڑی پوزیشن پر رہا وہ صرف جماعت ہی نہیں بلکہ سیاست سے بھی تائب ہوتا نظر آ رہا ہے اور بڑا سوال یہ ہے۔

 کہ ایک جماعت جو چند روز پہلے تک ملک میں انقلاب اور اس کے لئے دوتہائی اکثریت ملنے کی دعویدار تھی اس بری طرح ٹوٹ پھوٹ سے دوچار کیونکر ہوئی اور اب تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ اگر پارٹی چھوڑنے والوں کی رفتار یونہی رہی تو کیا بحیثیت پارٹی تحریک انصاف کا کوئی سیاسی کردار رہے گا اور عمران خان مستقبل کی سیاست میں کوئی بڑا کردار ادا کر پائیں گے ۔ ملکی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل نظر آتا ہے اور انتخاب لڑنے والے ٹکٹ کیلئے اس جماعت کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں جس کے اقتدار میں آنے کے امکانات زیادہ ہوں اور اس کیلئے انہیں تھپکی اور سگنل بھی حاصل ہو ۔ ماضی میں مخصوص مقاصد کیلئے دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایسے ہی حالات سے دوچار رہیں ۔پیپلز پارٹی کو جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایسی صورتحال کا سامنا رہا ہے اور پھر جنرل مشرف کے دور میں ن لیگ میں سے ق لیگ اور بعد ازاں تحریک انصاف کو ٹیک آف کرانے اور مسند اقتدار پر لانے کیلئے بھی نواز شریف اور ان کی جماعت ٹارگٹ بنی ۔ نواز شریف کی عدالتی نااہلی کے باوجود ان کی اہمیت و حیثیت آج بھی قائم ہے ۔عمران خان کا خیال تھا ریاست ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی ان کی گرفتاری تحریک انصاف کیلئے ریڈ لائن قرار پائی اور 9مئی کو گرفتاری کے ردعمل میں جو ہوا اس کے بعد کراچی سے خیبر تک عوام کے اندر تحریک انصاف کے اس عمل کے خلاف ردعمل موجود ہے اور خود جماعت کے ذمہ داران اور سابق اراکین اسمبلی دھڑا دھڑ جماعت چھوڑتے نظر آ رہے ہیں ۔

اب حالت یہ ہے وہ عمران خان جو مذاکراتی عمل کے حوالے سے یہ کہتے تھے کہ میں چوروں ڈاکوؤں سے مذاکرات کیلئے تیار نہیں آج وہ مذاکرات کی تکرار کرتے نظر آ رہے ہیں اور اب ان کی جانب سے باقاعدہ مذاکراتی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے ۔عمران خان کی جانب سے بنائی جانے والی مذاکراتی کمیٹی کو ان کی جانب سے سنجیدہ کوشش قرار دیا جا سکتا ہے ،مذاکراتی عمل اب فریقین میں ہی نہیں بلکہ اس میں تیسرا فریق اسٹیبلشمنٹ کی صورت میں موجود ہے اور حکومت ان کی مرضی کے بغیر کبھی مذاکراتی میز پر نہیں آئے گی البتہ مذاکرات کا انحصار خود عمران خان کے طرزعمل پر ہوگا اور اگر وہ مزاحمتی سیاست اور ٹکراؤ کی بجائے مفاہمت کی جانب راغب ہوں گے تو مستقبل قریب میں یہ ممکن بن سکتے ہیں کیونکہ 9مئی کے واقعات سے ان کی جماعت اور سیاست کو دھچکہ تو لگا ہے مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی مقبولیت ختم ہو کر رہ گئی ہے وہ ایک سیاسی حقیقت تھے اور ہیں ۔مستقبل کی سیاست میں بڑا کردار ادا کرنے کیلئے انہیں 9مئی کے واقعات پر افسوس بھی ظاہر کرنا ہوگا اور اس پر ان کے طرزعمل سے ندامت کا اظہار بھی ضروری ہے ۔جہاں تک حکومت کے طرزعمل کا سوال ہے تو حکومت کو بھی مذاکراتی پیشکش کو سنجیدگی سے لینا چاہئے کیونکہ ملک کو آگے لے جانے کیلئے بڑی ضرورت ڈائیلاگ کی ہے اور موثر ڈائیلاگ کے بغیر نہ تو یہاں سے سیاسی و معاشی بحران کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی انتخابات کی جانب پیش رفت ممکن ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں