پیپلزپارٹی کی کابینہ میں عدم شمولیت شاید زیادہ دیر نہ چل سکے

(تجزیہ:سلمان غنی) پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں آخر کار حکومت سازی کے حوالہ سے ڈیڈلاک ٹوٹ گیا اور مخلوط حکومت کے اہم عہدوں پر تعیناتیوں سمیت خدوخال طے پا گئے تاہم اس امرکا جائزہ لینا ہو گا کہ کیا مخلوط حکومت ٹیک آف کر پائے گی ۔
انتخابات کے بعد اکثریتی جماعت تو پی ٹی آئی تھی تاہم اس نے اعلان کیا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی ،ن لیگ ،ایم کیو ایم سے نہیں مل سکتی جس کے بعد مذکورہ اتحاد کے سوا کوئی آپشن نہ تھا البتہ پی ٹی آئی نے حکومت سازی میں دلچسپی ظاہر نہ کر کے اور انتخابی نتائج مسترد کر کے ثابت کیا کہ وہ احتجاجی اور مزاحمتی سیاست پر مصر ہے ،اور بڑا سوال یہی کہ کیا اب ایسی سیاست کارگر ہو پائے گی جس کے حوالہ سے کہا جا سکتا ہے کہ اب شاید اس سیاست کا مستقبل نہ ہو البتہ مخلوط حکومت کے مستقبل اور مضبوطی کا انحصارن لیگ پر ہو گااور ن لیگ کو ہی ڈیلیور کرنا پڑے گا۔ جہاں تک کابینہ میں پیپلز پارٹی کی عدم شمولیت کا سوال ہے تو شاید یہ فیصلہ زیادہ دیر تک نہ چل سکے یہ حکومت سازی کا پہلا فیز ہو گا جس کیلئے اعلانات کر دئیے گئے البتہ اگلے فیز میں امکان ہے کہ پیپلز پارٹی کو کابینہ میں شامل ہو نا پڑے اس لئے کہ یہ دونوں کی ضرورت ہو سکتی ہے ویسے بھی کچھ اور عناصر اس حوالے سے سرگرم ہیں اور پہلے مرحلہ میں انھوں نے مخلوط حکومت کے اعلان کو ہی ضروری سمجھابلا شبہ اس وقت حکومت بنانے کیلئے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے پاس نمبرز پورے ہیں اور ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر ان کے پاس موثر نمبر ہوں گے مگر حکومت کی مضبوطی کا انحصار نمبرز سے زیادہ کارکردگی اور ڈیلوری پر ہو گا اوراس حوالہ سے معاشی چیلنج بڑا چیلنج ہو گا ۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی کی عدم شمولیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے حالات کا ادراک ہے اور اس کی پالیسی محض حکومت کے ساتھ فریق کی نھیں محض سہولت کار کی ہے اور وہ نفع نقصان میں شریک کار نہیں ہو گی لہذا کہا جا سکتا ہے کہ آج کی صورتحال میں ن لیگ نے حکومت کی کمان سنبھالنے کا اعلان کر کے بہت بڑا رسک لیا ہے اور اس فیصلہ کو واقعتا ملک اور جمہوریت کے مفاد میں تو سمجھا جا سکتا ہے مگر بظاہر اس میں مشکلات ہی مشکلات ہیں۔