نئے انتخابات کا مطالبہ حکومت کو دباؤ میں لانے کی کوشش

نئے انتخابات کا مطالبہ حکومت کو دباؤ میں لانے کی کوشش

(تجزیہ: سلمان غنی) جمعیت علما ئے اسلام کی مرکزی شوریٰ کے اجلاس کے بعد پارٹی سربراہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے 8فروری کے انتخابات کو رد کرتے ہوئے ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ ظاہر کر رہا ہے ۔ وہ موجودہ ملکی صورتحال میں مایوسی کے عمل سے دوچار ہیں۔

 حکومت اور اپوزیشن دونوں کے طرز عمل پر انہیں عدم اطمینان ہے اور وہ نئی پیدا شدہ صورتحال سے نکلنے کا واضح ذریعہ صرف نئے انتخابات کو سمجھتے ہیں ۔ اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ ان کا مطالبہ کس حد تک حقیقت پسندانہ ہے ، ایک مذہبی جماعت کی جانب سے ملک میں قومی انتخابات کے مطالبے کو کس حد تک سیاسی پذیرائی مل پائے گی اور اس تناؤ اور ٹکراؤ کی کیفیت میں کیا نئے انتخابات مسائل کا حل بن پائیں گے اور ملک ایسے کسی اقدام کا متحمل ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ کیا مولانانئے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے کو تیار ہوں گے ۔ مولانا فضل الرحمن بلاشبہ قومی سیاست میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں ، لیکن مولانا فضل الرحمن کی جماعت کو اس طرح سے ملک میں سیاسی اور انتخابی پذیرائی حاصل نہیں، پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمہ اور عدم اعتماد کے عمل میں مولانا فضل الرحمن کی حمایت اور ان کے خاندان کے اہم افراد کو حکومت میں پذیرائی ملی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ عدم اعتماد کے بعد مولانا فضل الرحمن نئے انتخابات کیلئے تیار نظر نہیں آ رہے تھے ۔

ان کا کہنا تھا کہ محض ایک سال کی تو بات ہے اور پھر انہوں نے نئے انتخابات بارے ایک انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ گدلے پانی سے دوبارہ گدلے پانی میں چھلانگ لگانا کیا کوئی معقول بات ہے لیکن 8فروری کے انتخابات میں مولانا فضل الرحمن اوران کی جماعت کو پارلیمانی محاذ پر کوئی پذیرائی نہ مل سکی اور پختونخواکے سیاسی محاذ پر مولانا فضل الرحمن ان کے صاحبزادے مولانا اسعد الرحمن اور ان کی جماعت کے اہم افراد پی ٹی آئی سے شکست کھا گئے ،مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے ایسی اطلاعات رہی ہیں کہ پی ڈی ایم کا سربراہ بنا کر انہیں بڑا مشن سونپنے والی بڑی جماعتوں کی قیادتوں نے انہیں ایوان صدر کے نئے مکین بنانے کا سگنل دیا تھا مگر انتخابات کے بعد انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو اعتماد میں لینے کی زحمت بھی نہ کی اور تب سے اب تک مولانا فضل الرحمن حکومت کے خلاف کسی بڑے کردار کے خواہاں نظر آئے ۔

پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمن کی احتجاجی طاقت کو تو بروئے کار لانے میں دلچسپی رکھتی ہے ، بانی پی ٹی آئی کو نئے اپوزیشن اتحاد کی سربراہی بارے مولانا فضل الرحمن کا نام پیش کیا گیا تھا مگر وہ ان جیسے مضبوط و متحرک کی تاب لانے کو تیار نہ تھے اور انہوں نے بلوچستان کے محمود خان اچکزئی کو ترجیح دی اور انتخابات کے چار ماہ بعد نئے انتخابات کی بات کو روایتی مطالبہ ہی کہا جا سکتا ہے ، مولانا فضل الرحمن نے اپنی پریس کانفرنس میں جہاں حکومت پر عدم اعتماد کیا وہاں انہوں نے پی ٹی آئی سے سنگین اختلافات کا اقرار بھی کیا اور کہا کہ خود سنی اتحاد کونسل کے سربراہ اعلان کر چکے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ حکومت اور اس کے ذمہ داران اپنے سیاسی مخالفین کو ٹارگٹ کرنے کی بجائے حکومت کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور پی ٹی آئی جیسی بڑی جماعت نے اپنے سیاسی مخالفین کو ٹارگٹ کرنے کی بجائے پاکستان کی مقتدرہ کو ٹارگٹ کر کے اپنے لئے راستے بند کر رکھے ہیں اور یہی وہ بڑی وجہ ہے کہ جمعیت علما ئے اسلام سمیت دیگر جماعتیں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کو تو تیار ہیں مگر پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر اسٹیبلشمنٹ سے خواہ مخواہ کی دشمنی مول لینے کو تیار نہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں