فضل الرحمن اور اتحادیوں کی حمایت کے بغیر آئینی ترامیم منظور نہیں ہوسکتیں :بلاول بھٹو

فضل الرحمن اور اتحادیوں کی حمایت کے بغیر آئینی ترامیم منظور نہیں ہوسکتیں :بلاول بھٹو

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا فضل الرحمان اوراتحادیوں کی حمایت کے بغیر آئینی ترامیم منظور نہیں ہوسکتیں،جسٹس منصور اگلے چیف جسٹس ہونگے ، آئینی ترامیم کا مبینہ مسودہ اصل مسودہ نہیں ہے۔

 متفقہ دستاویز کیلئے جے یو آئی کیساتھ مسودوں کا تبادلہ ہوگا،حکومت 9 مئی میں بانی پی ٹی آئی کے کردار کی تفصیلات پیش کرے ،فوجی عدالت سے متعلق ترمیم کیلئے اکثریت نہیں ہے ، آرٹیکل 8میں ترمیم کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ قومی سلامتی اجلاس بلائیں۔آرٹیکل تریسٹھ اے کے غیرآئینی فیصلے نے ارکان پارلیمنٹ کو اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دینے کے حق سے محروم کر دیا ہے ،انہوں نے یہ بات پیپلزلائرز فورم کے صوبائی صدور کے اجلاس میں کہی، اجلاس میں مجوزہ آئینی ترمیم سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔بلاول بھٹو نے کہا پی پی پی کا شروع ہی سے موقف اصولی رہا ہے اور وہ ایک جامع مسودہ پیش کرنا چاہتی ہے ۔ پی ٹی آئی کو شامل کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن ان کے بعد چیف آف آرمی سٹاف اور چیف جسٹس پر خطرناک اور اشتعال انگیز حملہ کیا گیا، جس سے مذاکرات کا موقع ختم ہوگیا، ہر پاکستانی اس بات سے واقف ہے کہ ہماری سیاست، پارلیمنٹ اور عدالتی نظام ٹوٹ چکا ہے ، شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان اور پارٹی کو انصاف کے حصول کیلئے پچاس سال انتظار کرنا پڑا اور عام آدمی کی صورت حال اب اور بھی سنگین ہے ، اصولی طور پر ملک میں عدالتی اصلاحات کی ضرورت پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے ،مثالی طور پر، ہم اپوزیشن کے ان پٹ کا خیرمقدم کریں گے ، لیکن موجودہ حالات ایسا نہیں کرنے دیتے ۔

اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کا اصل مسودہ جے یو آئی کے ساتھ شیئر کیا جائے گا، جب کہ جے یو آئی اپنے مسودے پر کام کرے گی،اگران مسودوں پر اتفاق رائے ہو جائے تو آئینی ترامیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرانا ممکن ہو جائے گا۔ اگرچہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ عمل تیزی سے آگے بڑھے ، لیکن ہماری ترجیح اپنے مقاصد کو حاصل کرنا ہے ۔ اس میں ایک یا دو ماہ سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے ، لیکن مولانا کی خواہش ہے کہ پی ٹی آئی بھی اس عمل میں شامل ہو۔ اس صورت میں یہ اصلاحات ممکن نہیں ہو سکتیں۔پی پی پی کے مسودے میں ججوں کی عمر کے متعلق نہ کوئی بات کی اور نہ ہی پارٹی نے اس پر کوئی توجہ مرکوز کی جبکہ حکومت ججوں کی عمر کے متعلق تبدیلیاں چاہتی تھی، پیپلز پارٹی نے ججوں کی ملازمت کی ابتدا کی عمر کی حد کم کرنے کی حمایت کی جس پر حکومت نے اتفاق کیا اور اسے مسودے میں شامل کر لیا، حکومت نے چیف جسٹس کی زیادہ سے زیادہ عمر 3 سال کے ساتھ 67 سال کرنے کی تجویز دی تھی۔ جے یو آئی نے موجودہ عمر کی حد 65 سال برقرار رکھنے کی تجویز دی۔ ہماری جماعت کا خیال ہے کہ عمر کی حد مقرر کرنا، چاہے 65 ہو یا 67، کو انفرادی طور پر دیکھا جا سکتا ہے ، مولانا فضل الرحمان کی جماعت نے تقرری کمیٹی میں عدلیہ کو پارلیمنٹ کے نمائندوں کے ساتھ ضم کرنے کی تجویز دی تھی، پیپلز پارٹی کو اس تجویز پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔چیف جسٹس کی ابتدائی تقرری ایک وقتی عمل کی ضرورت ہوگی۔

اس کے بعد نئے چیف جسٹس دیگر سینئر ججوں کے ساتھ مل کر مستقبل کا طریقہ کار وضع کر سکتے ہیں۔جہاں تک عام شہریوں کے لیے فوجی ٹرائلز کا تعلق ہے ، اس سلسلے میں دو تجاویز تھیں۔ پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کے حوالے سے اصولی موقف رکھتی ہے اور ان کی حمایت نہیں کرتی، تاہم، ایسی مثالیں موجود ہیں جب پیپلز پارٹی نے ایسے اقدامات کی حمایت کی ہے ۔ پیپلز پارٹی اس وقت ایسے اقدامات کی حمایت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ، اس لیے جہاں تک فوجی عدالتوں کا تعلق ہے ، حکومت کے پاس آئینی ترمیم کے لیے ضروری اکثریت نہیں ہے ، جہاں تک فوجی تنصیبات پر حملوں کا تعلق ہے ، ہم ان تحفظات پر غور کرنے کیلئے تیار تھے جن کا اطلاق کیا جا سکتا ہے ۔ تاہم جے یو آئی سے بات کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ آرٹیکل 8 میں ترمیم کے لیے سیاسی موقع کی کمی ہے ۔ اگر حکومت واقعی اس حوالے سے قانون سازی ضروری سمجھتی ہے تو پیپلز پارٹی مطالبہ کرے گی کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ قومی سلامتی اجلاس بلایا جائے ۔ تاہم ایسی تبدیلیوں کو موجودہ عدالتی اصلاحات کے ساتھ جوڑنا پیپلز پارٹی کے خیال میں ممکن نہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ حکومت 9 مئی کے حملوں میں عمران خان کے کردار کی تفصیلات پیش کرے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں