پی ٹی آئی احتجاجی کیفیت سے کیوں باہر نہیں نکل پائی ؟
(تجزیہ:سلمان غنی) اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاجی عمل کے اثرات ابھی ختم نہیں ہوئے پھر سے اسلام آباد کیلئے چڑھائی کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی احتجاجی کیفیت سے باہر نہیں نکل پائی اور وہ اس حوالہ سے یکسو اور سنجیدہ ہے اور ان کی لیڈر شپ کا طرزعمل اور ان کی جانب سے آنے والے اعلانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں۔۔۔
جسے بروئے کار لا کر وہ اپنی مشکلات خصوصاً مقدمات کی بھرمار سے نکل سکے لہٰذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ کیا وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی مشکلات ختم نہیں ہو پا رہیں ہر آنے والا دن ان کیلئے مشکلات کو بڑھاتا نظر آتا ہے اور وہ خود بھی ایسا طرزعمل کیونکر اختیار کرنے کو تیار نہیں کہ ان کیلئے کوئی سیاسی ریلیف ممکن ہو ، آخر کیا وجہ ہے کہ ان کا احتجاج کارگر ہوتا نظر نہیں آ رہا اور ان کی احتجاجی روش خود ان کیلئے کس حد تک فائدہ مند ہوگی ،اسلام آباد میں احتجاجی عمل اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے بعد توقع تو یہ تھی کہ شاید پی ٹی آئی اب نئی تیاری کے ساتھ میدان میں آئے گی لیکن پھر سے ان کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ وہ احتجاج کو ہی اپنی سیاست سمجھتے ہوئے اس کیفیت سے باہر نہیں نکلنا چاہتی البتہ اس نے اب اپنے احتجاج پر حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے اب فوری طور پر اسلام آباد اور بڑے شہروں کا رخ کرنے کی بجائے ضلعوں کی سطح پر احتجاج کا فیصلہ کیا ہے ۔تحریک انصاف کے احتجاجی مظاہروں سے انتظامی مشینری کی بڑی پریشانی یہ نظر آتی ہے کہ یہ محدود احتجاج کہیں بڑے احتجاج میں تبدیل نہ ہو جائے ویسے بھی احتجاج اور جارحانہ انداز پی ٹی آئی کی پہچان بن چکا ہے جس سے وہ نکلنے کو تیار نہیں ان کے احتجاجی مظاہروں کی ایک اہم بات یہ ہے کہ انتظامیہ اور پولیس کتنے بھی انتظامات کرے کہیں نہ کہیں ان کی خواتین اور نوجوان نکل کر اپنے وجود کا احساس دلاتے اور نعرے لگاتے نظر آ جاتے ہیں جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ حکومت نہیں تو کیا اسٹیبلشمنٹ سے بھی ان کا ڈیڈ لاک ہے تو تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کبھی ایسا ممکن نہیں ہوا کتنا بھی تناؤ ہو تو اسٹیبلشمنٹ ریاست کے مفاد میں ڈیڈ لاک پیدا نہیں ہونے دیتی اور ان کے احتجاجی سیاست کرنے والی جماعت کے ذمہ داران سے رابطے رہتے ہیں اور آج بھی یہ روابط قائم ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی نے اسٹیبلشمنٹ کی بجائے پاکستان کی حکومت کو ٹارگٹ بنایا ہوتا تو حکومت کے پاؤں نہیں ٹک پانے تھے مگر ان کی سیاسی بدقسمتی یہ کہ انہوں نے حکومت کی بجائے ریاست کو ٹارگٹ کر کے اپنے لئے بہت سے سوالات اور مشکلات کھڑے کر رکھی ہیں اور ان کا صعوبتوں کا دور ختم نہیں ہو پا رہا اور بدقسمتی یہ کہ انہیں اب بھی اس کا ادراک نہیں۔