آئینی ترمیم ہی الیکشن کمیشن کو دبائو سے نکال سکتی

آئینی ترمیم ہی الیکشن کمیشن کو دبائو سے نکال سکتی

(تجزیہ: سلمان غنی) سپریم کورٹ کی جانب سے خصوصی نشستوں پر اپنے فیصلہ پر عمل درآمد کرانے کے ضمن میں دوسری مرتبہ وضاحت کے بعدالیکشن کمیشن کے آگے بڑا سوالیہ نشان کھڑا نظر آرہا ہے ۔

 ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک اس پر عمل درآمد نہ ہو اور آئین پاکستان کے تحت الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد کا پابند ہے ، اگر الیکشن کمیشن مذکورہ فیصلہ پر عمل درآمد سے گریزاں رہتا ہے تو پھر سپریم کورٹ کو اس حوالے سے کوئی نہ کوئی ایکشن لینا ہوتا ہے ۔بارہ جولائی کے اپنے فیصلہ میں  سپریم کورٹ نے پابند کیا تھا کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کو ان کی مخصوص نشستیں دے ،دوسری جانب الیکشن کمیشن ایک طرف سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد کا موقف اختیار کرتا ہے مگر ساتھ ہی یہ کہتا بھی نظر آتا ہے کہ وہ خود ایک آئینی ادارہ ہے اور وہ فیصلے پر عمل درآمد کے حوالے سے خود کو آئین پاکستان کا بھی پابند سمجھتا ہے ، اس بنا پر اس نے فیصلہ پر عمل درآمد بارے وضاحت طلب کی تھی لہٰذا اب دوسری مرتبہ عدالتی وضاحت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلہ کے حوالہ سے یکسو اور سنجیدہ ہے اور فیصلہ پر عملدرآمد کے حوالہ سے الرٹ بھی ہے ۔سپریم کورٹ کی دوسری وضاحت بھی اس وقت آئی جب الیکشن کمیشن نے خصوصی نشستوں کے حوالہ سے اجلاس طلب کررکھاتھا اوراس امر کا امکان تھا کہ عدالتی اصلاحات پر آئینی ترمیم کے حوالہ سے حکومت کو دوتہائی اکثریت پر درپیش مشکلات کا ازالہ ہوجائے کیونکہ الیکشن کمیشن خصوصی نشستوں کی واپس تقسیم کا فیصلہ دے سکتا ہے اور اس حوالہ سے ایسی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنیں کہ حکومتی اتحادیوں سے تعلق رکھنے والے ان اراکین کو اسلام آباد طلب کرلیا گیا تھا جن کی نشستیں عدالتی فیصلہ کے بعد ختم ہوئی تھیں ۔اب ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کے دباؤ سے نکلنے کیلئے ایکٹ کے مطابق نئے قانون پر عملدرآمد بارے سنجیدہ ہے ۔ اس پرغورو خوض جاری ہے ،اطلاعات یہ ہیں کہ کمیشن کے دو اراکین قطع طور پر سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد کے حامی ہیں جبکہ دیگر کا کہنا ہے ہم وہی کریں گے جس کی آئین ہمیں اجازت دیتا ہے ،عدالتی اصلاحات پر مبنی آئینی ترمیم اگلے اڑتالیس گھنٹے میں ممکن بن جاتی ہے تو الیکشن کمیشن بھی اس حوالہ سے دباؤ سے آئے گا ، اگر اس حوالہ سے پیش رفت نہیں ہوتی تو الیکشن کمیشن کیلئے عدالتی فیصلہ پر عمل درآمد بارے کوئی اور آپشن نہیں ہوگا ۔سینئر قانون دان یہ تو کہتے نظر آتے ہیں کہ عدالتی فیصلہ پر عمل درآمد نہ کرنے پر توہین عدالت لاگو ہوسکتی ہے لیکن ایک آئینی ادارہ دوسرے آئینی ادارے کیخلاف توہین عدالت جیسی انتہائی کارروائی کرسکے گا ، ماہرین کوئی واضح موقف اختیارکرتے نظر نہیں آتے البتہ یہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد کے علاوہ کوئی آپشن نہیں یہ فیصلہ تب تک کھڑا رہے گا جب تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوجاتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں