پی ٹی آئی کا احتجاج ،لب و لہجہ وہی جو 9 مئی سے پہلے کا تھا
(تجزیہ:سلمان غنی) پی ٹی آئی اپنی 24نومبر کی احتجاجی کال کو ہی حتمی کال قرار دے رہی ہے اور اپنے کارکنوں ، اراکین اسمبلی اور ذمہ داران کو یہ ہدایات جاری کرنے کا مقصد کیا ہے۔
کہ ہمیں ڈو آر ڈائی کی بنیار پر ساری رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچنا ہے اور بانی پی ٹی آئی کی جانب سے ان ہدایات کا مقصد کیا ہے کہ جو بھی مارچ میں عملاً شریک نہ ہوا اس کا جماعت میں کوئی مستقبل نہیں۔ ان کا لب و لہجہ وہی ہے جو 9 مئی 2023 سے پہلے کا ہے ۔ جس میں وہ یہ کہتے نظر آ رہے تھے کہ کس کو کیا کرنا ہے ، سب کو بتا دیا گیا اور اب ان کے بقول اسلام آباد میں ہونے والی یہ جنگ فیصلہ کن ہوگی لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ کیا پی ٹی آئی حکومت کے خلاف فیصلہ کن اقدام کی پوزیشن میں ہے ۔ 24 نومبر کو اسلام آباد کے حالات کیا بن سکتے ہیں۔دوسری طرف اس کال نے خود حکومت اور مخالفین کو بھی حیران کیا ہے کیونکہ 26 ویں آئینی ترمیم اور دیگر ایشوز پر قانون سازی عمل کے بعدتاثر یہ تھا کہ حکومت کی گرفت مضبوط ہوگی اور پی ٹی آئی دفاعی محاذ پر چلی گئی ۔ البتہ پارٹی کے اندر مزاحمت پر یقین رکھنے والے فرنٹ محاذ پر بولتے بھی نظر آ رہے اور کال کے حوالہ سے تیاریوں میں مصروف ہیں۔ پارٹی کا داخلی بحران اپنی حد سے بڑھ گیا تھا کہ اس سے توجہ ہٹانے کیلئے کال کی ضرورت بھی تھی اور ویسے بھی بار بار کی احتجاجی کالوں کے باعث خود پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا کردار اور ساکھ بھی مجروح ہو رہی تھی۔
البتہ سندھ، بلوچستان، پنجاب کے محاذ پر پراسرار خاموشی ہے اس کی بھی بہت سی وجوہات ہیں اور احتجاجی کال پر عملدرآمد کی صورت میں بھی ان کا کوئی بڑا کردار نظر نہیں آ رہا۔ البتہ جہاں تک 24 نومبر کے احتجاج یا فیصلہ کن دھرنے کی کامیابی کا سوال ہے تو بڑا سوال یہی ہے کہ لاکھوں افراد باہر نکل پائیں گے ۔احتجاج کی کال پی ٹی آئی کیلئے اپنی سیاسی مفاد کی جنگ سے محض خدشات کی بنیاد پر فیصلے ہونگے یا مزاحمت ہوگی تو اس کے ردعمل کے نتیجہ میں نتائج منفی بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کی لیڈر شپ اپنے اس طرز عمل پر نظرثانی کیلئے پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائے تو احتجاجی تحریکیں کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں اس کیلئے تنظیمی و سیاسی طاقت ہونے کے ساتھ دیگر جماعتوں کو بھی ساتھ ملایا جاتا ہے ۔ جہاں تک پنجاب کے حالات کا سوال ہے تو پنجاب کی سطح پر کسی جگہ بھی کال کے حوالہ سے کوئی تحریک نظر نہیں آ رہی اور نہ ہی کوئی لیڈر پنجاب کے محاذ پر سرگرم نظر آ رہا ہے ۔ لہٰذا یہ دیکھنا پڑے گا کہ پی ٹی آئی کا حکومت کو امتحان میں ڈالنا مقصود ہے کیونکہ ایسا ممکن نہیں بن پائے گا کہ پختونخوا کا وزیراعلیٰ اسلام آباد پر چڑھائی کرتا نظر آئے اور ریاست او رریاستی ادارے خاموش تماشائی بنے رہیں۔