پاکستان میں دہشتگرد سرمایہ کاری کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے
(تجزیہ:سلمان غنی) دہشتگردی کا رحجان ریاست کیلئے ہی چیلنج نہیں بلکہ اس سے ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ،عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اس مذموم عمل میں کون ملوث ہیں چاہتے کیا ہیں اور ان کا ٹارگٹ سکیورٹی ادارے ہی کیوں ہیں۔
آخر کب پاک سرزمین دہشتگردی اور دہشتگردوں سے پاک ہوگی ، دہشتگردی عمل کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جب بھی ملک میں معاشی بحالی کا سلسلہ تیز ہو اور خصوصاً سرمایہ کاری پھلتی پھولتی نظر آئے تب ہی دہشتگردی کا عمل تیز ہوتا ہے ،دہشتگردایسا کیونکر کرتے ہیں اور انکا مطمع نظر کیا ہے تو یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان دفاعی اعتبار سے خود انحصاری کے بعد جب سے معاشی استحکام کیلئے سرگرم ہے دشمن اسکے خلاف سرگرم ہے اور اس مذموم عمل میں بعض بیرونی عناصر بھی ہیں ، پاکستان میں انکے سہولت کار بھی ساتھ دیتے ہیں اس عمل میں بعض کالعدم جماعتیں بھی پاکستان کو غیر مستحکم کررہی ہیں اور ایجنڈا ان کا ڈھکا چھپا نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان معاشی حوالے سے مستحکم ہوگا تو ان کا کھیل ختم ہو جائے گا ، انکی بقا مشکل ہوگی انہیں نہ تو جدید اسلحہ ملے گا اور نہ ہی فنڈز فراہمی ہوگی ۔
خصوصاً افغانستان میں سیاسی تبدیلی کے بعد مغربی بارڈرز پر غیر معمولی صورتحال ہے ۔ضررت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے دوحہ معاہدہ پر عمل کیلئے پاکستان کو دباؤ بڑھانا چاہئے کیونکہ دوحہ معاہدہ میں افغان طالبان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہوگی جہاں تک افغان طالبان سے مذاکرات کا سوال ہے تو ابھی تک اس حوالے سے کوششیں کارگر نظر نہیں آ رہیں شواہد فراہمی کے باوجود طالبان ذمہ داری کے احساس پر تیار نہیں جہاں تک بلوچستان کو ٹارگٹ کرنے کا سوال ہے تو بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال پاکستان کا بڑا صوبہ ہے یہاں سی پیک کا عمل اور خصوصاً گوادر کی بندرگاہ کا فعال کردار پاکستان کے معاشی مستقبل کا ضامن ہے اور دشمن سمجھتا ہے کہ بلوچستان کا ترقی و خوشحالی میں بڑا کردار بروئے کار آیا تو پاکستان کو آگے بڑھنے سے روکا نہیں جا سکے گا لہٰذا یہاں دشمن علیحدگی پسند تنظیموں خصوصاً بی ایل اے ودیگر کالعدم تنظیموں کو دہشتگردی کیلئے بروئے کار لا رہا ہے ۔
دہشتگردی کیخلاف یہ جنگ اب آخری مراحل میں ہے دشمن آپریشن عزم استحکام سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے کوئی دن ایسا نہیں جا رہا کہ خوارج جہنم واصل نہ ہوتے ہوں ، اس عمل میں ہمارے افسر اور جوان بھی شہید ہو رہے ہیں لیکن آج بڑی ضرورت یہ ہے کہ قوم زیادہ دلجمعی سے اپنی فوج کے پیچھے کھڑی ہو اور ان سہولت کاروں کا قلع قمع کیا جائے جو دشمن کے کھیل کا حصہ بنے ہوئے ہیں سویلین اداروں کی ذمہ داری ہے کہ دہشتگردوں تخریب کاروں کی تلاش میں سکیورٹی اداروں کی مدد کریں صوبائی حکومتیں شہروں اور قصبات میں امن یقینی بنانے میں کردار ادا کریں،انٹیلی جنس سسٹم مزید موثر اور فعال بنانا ضروری ہے ۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں صرف فوج نہیں میڈیا سول سوسائٹی سب کو ملکر اپنا فرض ادا کرنا ہے ، اہل سیاست کو بھی چاہئے کہ ایک دوسرے کیخلاف سیاسی سکورننگ کی بجائے ملکی بقا و سلامتی کی فکر کریں اور انکے ساتھ کھڑے ہوں انکا حوصلہ بڑھائیں جو قوم کے روشن مستقبل کیلئے اپنا آج قربان کر کے قربانیاں دیتے نظر آ رہے ہیں اور ان عناصر کو بھی انکے انجام پر پہچانا ضروری ہے جو ملک میں مایوسی انتشار کو ہوا دے رہے ہیں یہ دشمن کا ہتھکنڈا ہے جسے ناکام بنانے کیلئے سب کو قومی جذبہ پیدا کرنا ہوگا یہی جذبہ بروئے کار لایا گیا تو ملک بنا، پھر ایسے جذبے نے پاکستان کو آگے بڑھایا ملک نیو کلیئر پاور بنا اب ایسے جذبہ کو بروئے کار لا کر پاک سرزمین کو دہشتگردی سے پاک کر کے معاشی استحکام کی منزل پر پہنچایا جا سکتا ہے ۔