جن کا استحقاق نہیں بنتا سرکاری رہائشگاہ کیوں دی :چیف جسٹس
لاہور( کورٹ رپورٹر)لاہور ہائیکورٹ کے افسروں اور جوڈیشل افسروں کی سرکاری رہائش گاہوں کے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ایڈیشنل سیکرٹری ویلفیئر سے چار دسمبر کو رپورٹ طلب کرلی ۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے ہائیکورٹ کے ڈرائیور یاسین کی درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل سیکرٹری ویلفیئر سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیاکہ جن کا استحقاق نہیں بنتا انہیں کیوں رہائش دی گئی ،کیٹیگریز سے ہٹ کر گھر الاٹ کئے گئے ہائیکورٹ کے ججز تو 60 ہیں، گھر کم ہیں 60 ججز میں سے صرف 12 ججز کے لئے رہائش گاہیں ! ، یہ دیکھیں کہ کتنے ریٹائر ہوچکے ہیں اور سرکاری رہائش گاہیں ان کے قبضے میں ہیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری ویلفیئر عدالت میں تسلی بخش جواب نہ دے سکے ۔اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل وقاص عمر نے عدالت کوبتایاکہ جو رپورٹ ہے اس کے مطابق ٹوٹل 237 رہائش گاہیں ہیں جس میں کچھ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر آؤٹ آف ٹرن دی گئی ہیں الاٹمنٹ کے بعد 26 گھر رہ جاتے ہیں باقی ہیں جو ہائیکورٹ کی صوابدید پر ہیں چیف جسٹس نے کہاکہ یہ غلط ہے ،اپنی رپورٹ درست کیجیے ، نشان دہی کریں کہ ریکارڈ درست ہے یا نہیں ، اس کی تصدیق کروائیں گے عدالت نے درخواست گزار کو کہاکہ رپورٹ کا جائزہ لے کر بتائیں کہ سرکاری گھر میرٹ پر الاٹ ہوئے یا نہیں ۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کردی۔