مذاکرات کی کامیابی کیلئے دوطرفہ مؤقف میں لچک ضروری
(تجزیہ:سلمان غنی) قومی اسمبلی کے ایوان میں حکومت اور اپوزیشن کے ذمہ داران کی جانب سے مذاکرات اور ڈائیلاگ کی ضرورت کے احساس پر زور ہے یہ بات ظاہر ہوتی ہے۔
کہ سیاسی قوتیں خود باہم ٹکراؤاور تناؤکی کیفیت سے پریشان ہیں اور ملکی معاملات کو آگے چلانے اور بڑھانے کیلئے مل بیٹھنے کو وقت کی ضرورت سمجھتی ہیں خصوصاً وزیراعظم شہباز شریف کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ خان کا یہ کہنا ہے کہ مذاکرات اور ڈائیلاگ کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا اور فریقین مل نہیں بیٹھیں گے تو ملک میں استحکام نہیں آئے گا ،اہم سوال یہی ہے کہ کیاحکومت کی جانب سے مذاکرات کی بات کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر مذاکرات کا کوئی مستقبل نہیں، لہٰذا مذاکرات کی کامیابی کا دارو مدار ایک دوسرے کے موقف میں لچک پیدا کرنے سے جڑا ہوتا ہے ، جہاں تک 9مئی کے واقعات پر معافی مانگنے اور عدالتی کمیشن کے قیام کا مسئلہ ہے اس پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک ہے اس پر سیاست اور الزامات کی سیاست کا غلبہ ہے جس میں سیاست اور جمہوریت کا نظام رہ گیا ہے اس لئے حکومت ہو یا اپوزیشن کون غلط ہے اور کون درست اصل مسئلہ فریقین کا ایک دوسرے کے بارے میں بھی اور ملک کو درپیش سلگتے مسائل پر زیادہ سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے ایک دوسرے کے وجود کا اعتراف کر کے آگے بڑھا جا سکتا ہے اور اگر سیاسی قوتیں اپنے اپنے طرز عمل پر نظرثانی کیلئے تیار ہوں تو حل نکل سکتا ہے مگر اس کے لئے سیاسی طرز عمل اختیار کرنا پڑے گا اور مذاکراتی عمل کیلئے پارٹی ذمہ داران کی بجائے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اہم جماعتوں کی لیڈر شپ اہم ایشوز پر مذاکرات کی بات کرے کیونکہ جماعتوں میں اختیار ان کے پاس ہے اور اگر وہ اس کے لئے تیار ہوں تو بات بن بھی سکتی ہے چل بھی سکتی اور ملک میں سیاسی استحکام آ سکتا ہے ۔