امریکہ خاص ایجنڈا کے تحت پاکستان کو دباؤ میں لانے کیلئے سرگرم

امریکہ خاص ایجنڈا کے تحت پاکستان کو دباؤ میں لانے کیلئے سرگرم

(تجزیہ:سلمان غنی) پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکی تحفظات کا عمل ظاہر کر رہا ہے کہ امریکہ اپنے کسی خاص ایجنڈا کے تحت پاکستان کو دباؤ میں لانے کیلئے سرگرم ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان نے امریکہ کی پابندیوں کے عمل کو متعصبانہ اور جانبدارانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پابندیوں کا یہ عمل خطے بلکہ عالمی سطح پر سٹرٹیجک استحکام کیلئے خطرناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے ۔

لہٰذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ ایسی پابندیوں کیلئے امریکہ نے اس وقت کا انتخاب کیوں کیا ۔امریکہ کی جانب سے بیلسٹک میزائل پروگرام میں مبینہ تعاون کے عمل پر چار فرموں پر پابندی کے اگلے روز امریکی قومی سلامتی کے نائب وزیر جوناتھن کا یہ بیان کہ پاکستان ایسے میزائل بنا رہا ہے جو امریکہ اہداف کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک طے شدہ عمل اور پلاننگ کا حصہ ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ پاکستان کو دباؤ میں لانا اور دباؤ بڑھانا چاہتا ہے اور یہ کام ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے کہ جب بائیڈن انتظامیہ حاوی ہے اور ٹرمپ انتظامیہ آرہی ہے اور امریکی طرز عمل سے واضح نظر آ رہا ہے کہ یہ پابندیاں امتیازی نہیں اس سے پہلے بھی امریکہ اس طرح کی پابندیاں لگاتا رہا ہے لیکن ایسی پابندیاں کارگر نہیں ہوتیں اور ویسے بھی پاکستان کے میزائل پروگرام کا انحصار کسی مغربی ممالک سے نہیں اور نہ ہی اس حوالہ سے امریکہ کا کسی بھی سطح پر پاکستان کو تعاون حاصل رہا ہے امریکہ کا شروع سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور میزائل سسٹم ایک مسئلہ رہا ہے کیونکہ امریکہ سمجھتا ہے کہ اس پروگرام کے باعث پاکستان دفاعی اعتبار سے خودانحصاری کی منزل پر پہنچا اور اب جبکہ پاکستان معاشی حوالہ سے تگ دو میں مصروف عمل ہے اور چین سمیت خطے کے دیگر ممالک پاکستان کی معاشی مضبوطی میں اس سے معاونت کر رہے ہیں۔

تو اگر معاشی حوالہ سے بھی پاکستان خود انحصاری کی منزل پر پہنچ پاتا ہے تو پھر خطہ میں اپنے مفادات کے حوالہ سے پاکستان دست نگر نہیں رہے گا اور اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے اسے اس کا تعاون حاصل نہیں ہو پائے گا ۔پاکستان کے خلاف ممکنہ اقدامات بروئے کار لا کر دیکھ لئے گئے ہیں اور وہ کارگر نہیں ہو پائے تو اب براہ راست امریکہ پاکستان کو دباؤ میں لانے اور اس پر پابندیوں کے عمل کو بروئے کار لانے پر کاربند ہیں لیکن عملاً دکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان پر اس حوالہ سے کوئی بوکھلاہٹ طاری نہیں اور پاکستان کی ترجمان کا اس حوالہ سے جراتمندانہ اور حقیقت پسندانہ ردعمل اس کا بڑا ثبوت ہے ۔ آج کے حالات میں چین سے تعلقات اور خصوصاً اپنے معاشی مفادات کے حوالہ سے وزیراعظم شہباز شریف اور فوجی سربراہ جنرل عاصم منیر ایک ہی ایجنڈا کے تحت مختلف محاذوں پر سرگرم نظر آ رہے ہیں اور ان کی مشترکہ کوششوں اور کاوشوں سے آج پاکستان معاشی حوالہ سے خطرناک زون سے باہر ٹیک آف کرنے کی پوزیشن میں ہے اور کوئی ایسا دباؤ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں جس کے اس کے قومی مفادات اور سلامتی کے معاملات پر زد پڑتی ہو ویسے بھی خود امریکی ماہرین پاکستان پر لگائی جانے والی میزائل پروگرام پر ان پابندیوں کو موثر نہیں سمجھتے اور ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں لگائی جانے والی ایسی پابندیاں پاکستان کے کسی پروگرام پر اثرانداز نہیں ہوسکیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں