زیادتی کے ڈیڑھ لاکھ کیس رجسٹرڈ، پنجاب میں ہر 15 منٹ بعد ریپ ہورہا : ہائیکورٹ میں رپورٹ

لاہور(کورٹ رپورٹر)لاہور ہائیکورٹ میں خاتون سے زیادتی کے الزام میں گرفتار ملزم واجد علی کی درخواست ضمانت پر سماعت گزشتہ روز چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس علی ضیا باجوہ پر مشتمل فل بینچ نے کی، عدالت نے اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل ،پراسیکیوٹر جنرل اور آئی جی پنجاب کو 10 فروری کو طلب کرلیا۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے قراردیاکہ جرائم کو ہم سب نے مل کر ختم کرنا ہے ،زیادتی کے 30فیصد کیس جھوٹے ہیں جبکہ تفتیشی افسروں کو بہترین ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے ۔ دوران سماعت چیف جسٹس عالیہ نیلم نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل پاکستان کو بلایا تھا وہ کیوں نہیں آئے ،یہ پورے ملک کا معاملہ ہے اٹارنی جنرل پاکستان کو پیش ہونا چا ہئے تھا۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے بتایاکہ جب سے اینٹی ریپ ایکٹ بنا ڈیڑھ لاکھ کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں ۔جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہاکہ آپ کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ہر پندرہ منٹ کے بعد ریپ ہو رہا ہے ہم تو آپ کے حساب سے بھارت سے آ گے نکل گئے ، بھارت تیسرے نمبر پر ہے وہاں ہر پندرہ منٹ میں ریپ ہو رہا ہے ۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاکہ یہ سب کیسز ریپ کے نہیں ہیں،پنجاب کے ہر سنٹر میں ایسے کیسز کیلئے خواتین تعینات ہیں، میڈیکل آفیسر اور باقی کو ٹریننگ کروائی جا رہی ہے ، جھوٹے مقدمات درج کرانے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے ، جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دئیے کہ جن لوگوں نے جھوٹے ریپ کے مقدمات درج کرائے انکے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ رپورٹ کے مطابق ریپ کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں، اس کے بعد منشیات اور قتل کے مقدمات ہیں، اینٹی ریپ ایکٹ مکمل طور پر نافذالعمل نہیں ، اینٹی ریپ ایکٹ کی تین سٹیجز ہیں، کیس کو فائل کرنے سے پہلے اینٹی ریپ ایکٹ کو پڑھ لینا چاہئے۔ 30 فیصد ریپ کے جھوٹے کیسز درج کرائے گئے ، جینڈر بیسڈ وائلنس کیس کی تحقیقات کیلئے پرفارما میں ٹراما کا کالم شامل کریں، آئی جی پنجاب نے ریپ کیسز کے حوالے سے اچھا کام کیا ہے ، جرائم کو ہم سب نے مل کر ہی ختم کرنا ہے ، ان کیسز کی تفتیش کیلئے آفیسرز کی بہترین ٹریننگ کی ضرورت ہے ۔پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ نے مختلف سیکشنز کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ 17 سکیل سے کم سکیل کا کوئی پولیس افسر کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکتا۔آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے عدالت کو بتایا کہ سیف سٹی اتھارٹی کی مدد سے ورچوئل پولیس سٹیشن قائم کر دیا گیا ہے ، ریپ سے متاثرہ خاتون ای میل، کال یا واٹس ایپ کے ذریعے شکایت درج کرا سکتی ہے ۔جسٹس فاروق حیدر نے ریمارکس دئیے کہ رولز میں کچھ ترمیم کی بھی ضرورت ہے ، سسٹم کوٹھیک کرناہے ،ایڈووکیٹ جنرل حکومت کے علم میں لائیں، آئی جی پنجاب، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور ایف آئی اے سب مل کر بیٹھ جائیں رولز میں کمی کوتاہی کو دور کریں۔ فاضل بینچ نے اٹارنی جنرل پاکستان، ایڈووکیٹ جنرل، پراسیکیوٹر جنرل اور آئی جی پنجاب کو 10 فروری کو دوبارہ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔