جسٹس ہاشم کاکڑ ماضی کی تلخ یادیں بیان کرتے آبدیدہ

جسٹس ہاشم کاکڑ ماضی کی تلخ یادیں بیان کرتے آبدیدہ

کوئٹہ(مانیٹرنگ ڈیسک،اے پی پی)سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑبلوچستان ہائیکورٹ میں منعقدہ الوداعی تقریب میں اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکتے اور آبدیدہ ہوگئے اورخطاب میں کہا جب وکالت شروع کی تو لوگوں کی طرف سے کہا گیا چوکیدار کے بیٹے ہو کہیں ٹھیلہ لگا لو وکالت تمہارے بس کی بات نہیں۔

 سابق چیف جسٹس بلوچستان ماضی کی تلخ یادیں بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ انہوں نے کہا گھر سے عدالت آنے کے لیے کرائے کے پیسے نہ ہونے پرکئی بار میلوں کا فاصلہ پیدل طے کرنا پڑتا، شعوری طور پر کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی کسی کی عزت نفس کو ٹھیس نہیں پہنچایا۔انہوں نے شرکا سے جانے انجانے میں ہونے والی کسی بھی غلطی پر معافی مانگی اور کہا بیٹیاں میرے دل کے بہت قریب ہیں قبائلی معاشرے میں بیٹیوں بہنوں سمیت خواتین کو آگے بڑھنے نہیں دیا جاتا جو انتہائی منفی رویہ ہے خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے جو کسی صورت نہیں ہونا چاہئے ۔ جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ نے کہا ہے کہ بار کو ماں کی حیثیت حاصل ہے ہر جج بار سے ہو کر آیا ہے ،بینچ کو بار کا تعاون حاصل رہا تو کوئی کام مشکل نہیں ہوگا، عدلیہ کی رینکنگ کا معیار اگر صرف کرپشن ہوتا بلوچستان کی جوڈیشری کا شمار ٹاپ 10 میں ہوتا لیکن یہاں معیار صرف کرپشن نہیں بلکہ 60 سے زائد معیار ہیں جن کو رینکنگ کیلئے بنیاد بنایا جاتا ہے ۔ اس موقع پر قائم مقام چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس محمد اعجاز سواتی، سپریم کورٹ بار کے صدر میاں محمد رئوف عطاء ایڈووکیٹ، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میر عطاء اللہ لانگو نے بھی خطاب کیا۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ نے کہا کہ جب چیف جسٹس بلوچستان بنا تو پہلے دن 10 نوٹیفکیشنز جاری کیے ، پہلا پروٹوکول ختم کیا اور باقی نوٹیفکیشنز اختیارات سے متعلق تھے ۔ شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے میاں محمد رئوف عطاء نے کہا کہ جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ وکالت کے پیشے میں بھی انتہائی متحرک تھے وہ ایک بہترین وکیل کے ساتھ بہترین جج رہے اور ایسے کیسز کا فیصلہ کیا جس میں جان کا بھی خطرہ تھا لیکن وہی کیسز آج ہمارے لیے ایک نذیر ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں