فضل الرحمن سیاسی وزن کس پلڑے میں ڈالیں گے ، کچھ کہا نہیں جا سکتا

 فضل الرحمن سیاسی وزن کس پلڑے میں ڈالیں گے ، کچھ کہا نہیں جا سکتا

(تجزیہ: سلمان غنی) حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑھتے تناؤ اور ٹکراؤ کے باوجود مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ آنے والے سیاسی حالات میں اپنا سیاسی وزن کس پلڑے میں ڈالیں گے ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

بظاہر تو مولانا فضل الرحمن حکومتی ساکھ پر بڑے اعتراضات اٹھا کر اس حکومت کے خاتمے اور نئے انتخابات کی بات کرتے نظر آرہے ہیں لیکن دوسری جانب وہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے ڈیڈ لاک کے بھی خلاف ہیں اور مذاکرات اور ڈائیلاگ کو ہی سیاسی مسائل کا حل سمجھتے ہیں ۔ حکمران اتحاد سے یہ اپنے راہ و رسم بحال رکھے ہوئے ہیں ، اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ کیا اپوزیشن اتحاد عید الفطر کے بعد کسی بڑی احتجاجی تحریک کی پوزیشن میں ہے ، کیا مولانافضل الرحمن اس کا حصہ بن پائیں گے ؟۔ جہاں تک اپوزیشن کی جانب سے عیدالفطر کے بعد اے پی سی بلانے اور حکومت مخالف تحریک چلانے کا تعلق ہے تو اس سے پہلے بھی اپوزیشن کی جانب سے کچھ روز قبل اسلام آباد میں کانفرنس کا انعقاد ہوا مگر اسے نتیجہ خیز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔کانفرنس کے حوالے سے جے یو آئی نے اپنے تحفظات بھی ظاہرکئے اور اعلامیہ پر دستخط بھی نہیں کئے اس دوران مولانافضل الرحمن ملک سے باہر تھے لیکن مولانا فضل الرحمن کے وطن واپسی کے بعد پھر سے مولانا فضل الرحمن سیاسی محاذ پر غالب آگئے اور ان کی قومی اسمبلی میں تقریر سمیت مختلف مواقع پر خطابات اور ان میں ملکی سلامتی کو در پیش خطرات اوردہشت گردی کے رجحانات پر ان کی جانب سے آنے والے ردعمل کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا جاسکتا ہے ۔

مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت حکومت مخالف تحریک کا حصہ بن پائی تو اس کا انحصار خود ان سے زیادہ حکومت پر ہوگا ، مولانا فضل الرحمن کسی بھی صورت میں اپوزیشن اتحاد کا حصہ نہیں بن پائیں گے ، جہاں حتمی اختیاربانی پی ٹی آئی کا ہو ۔ اب خود مولانا فضل الرحمن کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں وہ اپنا بڑا کردار چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ خود بانی پی ٹی آئی کے خلاف تحریک کیلئے جب پی ڈی ایم تشکیل دیا گیا تو مولانا فضل الرحمن اس کے سربراہ بنے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی میں کوئی اتحاد اس لئے بھی ممکن نہیں کہ دونوں جماعتوں کا تعلق پختونخوا سے ہے ، جے یو آئی کی پارلیمانی کیفیت کو نقصان پی ٹی آئی کی وجہ سے پہنچا ۔البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے درمیان تناؤ کی کیفیت میں مولانا فضل الرحمن مفاہمت یا ڈائیلاگ میں کردار ادا کرسکتے ہیں ۔دوسری جانب پی ٹی آئی کے ذمہ دار ذرائع یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت مخالف تحریک میں مولانا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ پی ٹی آئی نے اس حوالے سے قومی اسمبلی میں اسد قیصر کو مشن سونپ رکھا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو ہر قیمت پر ساتھ ملایا جائے ، لیکن اسد قیصر اس مشن میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکے ہیں ۔حکومت اور اپوزیشن سمیت کوئی بھی حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ آخر مولانا فضل الرحمن کس کے ساتھ ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں