ملکی قرضوں کا حجم 73 ہزار 688 ارب روپے سے تجاوز کرگیا

کراچی(سٹاف رپورٹر)پاکستانی معیشت مسلسل قرضوں کے بوجھ تلے دبتی جارہی ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک کے مجموعی قرضوں کا حجم مارچ 2025 تک بڑھ کر 73 ہزار 688 ارب روپے سے خطرناک حد تک تجاوز کرگیا، جو گزشتہ سال اسی عرصے میں 65 ہزار 374 ارب روپے تھا۔
اس طرح ایک سال میں مجموعی قرضوں میں 12.7 فیصد جبکہ صرف ایک ماہ میں 0.9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق سرکاری قرضوں میں تیزی سے بڑھتا ہوا رجحان ملکی مالیاتی نظم وضبط اور آمدنی واخراجات کے درمیان غیرمتوازن صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ اس وقت ہر پاکستانی شہری پر اوسطاً تقریباً ساڑھے تین لاکھ روپے کا قرض واجب الادا ہے جو ایک تشویشناک معاشی اشارہ ہے ۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مقامی قرضوں کا حجم مارچ 2024 میں 43 ہزار 432 ارب روپے تھا، جو ایک سال میں بڑھ کر مارچ 2025 تک 51 ہزار 518 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ یعنی 18.6 فیصد اضافہ صرف ایک ماہ میں ہوا اور دوسری جانب مقامی قرضوں میں 1 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جو فروری 2025 میں 51 ہزار 22 ارب روپے سے بڑھ کر مارچ میں 51 ہزار 518 ارب روپے تک جا پہنچا۔ پاکستان کے بیرونی قرضے بھی ایک سال میں 1 فیصد بڑھ کر 21 ہزار 942 ارب روپے سے بڑھ کر 22 ہزار 170 ارب روپے تک پہنچ گئے ۔ صرف مارچ کے مہینے میں ان قرضوں میں 0.7 فیصد اضافہ ہوا، جو فروری میں 22 ہزار 14 ارب روپے سے بڑھ کر 22 ہزار 170 ارب روپے ہوگئے۔ دوسری جانب سٹیٹ بینک کے مطابق حکومت کو قرضوں پر سود کی مد میں 6 ہزار ارب روپے سے زائد ادا کرنا پڑے، جو قرضوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا واضح ثبوت ہے۔ قرضوں، سود کی ادائیگیوں اور سرکاری ضمانت کی رقم کو ملا کر مجموعی مالی ذمہ داری کا حجم 89ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے، جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی قرضوں میں خطرناک حد تک اضافہ حکومتی غیر ضروری اخراجات، سبسڈی کے بوجھ اور آمدنی کے مقابلے میں بڑھتے ہوئے بجٹ خسارے کی وجہ سے ہوا، اگر فوری مالیاتی اصلاحات نہ کی گئیں تو آنے والے دنوں میں ملکی معیشت مزید مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے۔