ٹرانسفر پر جج کی رضامندی آئینی تقاضا :جسٹس علی مظہر

ٹرانسفر پر جج کی رضامندی آئینی تقاضا :جسٹس علی مظہر

اسلام آباد (کورٹ رپورٹر)سپریم کورٹ میں ججز تبادلہ اورسنیارٹی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان میں ٹرانسفر پر جج کی رضا مندی آئینی تقاضا ہے ، بھارت میں ٹرانسفر پر جج کی رضامندی نہیں لی جاتی۔

جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے ججز تبادلہ کیس کی سماعت کی۔وکیل حامد خان نے اپنے دلائل میں کہا ہائیکورٹس سے ججز کی ٹرانسفر پر بہت سارے نکات پر غور ہونا چاہیے ، اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے میں غیرمعمولی جلد بازی دکھائی گئی۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا انڈیا میں ججز کی ٹرانسفر میں جج کی رضا مندی نہیں لی جاتی بلکہ وہاں ججز ٹرانسفر میں چیف جسٹس کی مشاورت ہے ، ہمارے ہاں جج ٹرانسفر پر رضامندی آئینی تقاضا ہے ۔جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا انڈیا میں ہائیکورٹس کے ججز کا یونیفائیڈ کیڈر ہے ، پاکستان میں ہائیکورٹس کے ججز کی سنیارٹی کا یونیفائیڈ کیڈر نہیں ،جسٹس شکیل احمد نے کہا انڈیا میں ہائیکورٹس ججز کی سنیارٹی لسٹ ایک ہی ہے ، ٹرانسفر پر کسی جج کی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی۔

وکیل حامد خان نے کہا ججز کی ٹرانسفر کے عمل میں چیف جسٹس پاکستان نے بامعنی مشاورت ہی نہیں کی، اصل مقصد جسٹس سرفراز ڈوگر کو لانا تھا، باقی 2 ججز کا ٹرانسفر تو محض دکھاوے کیلئے کیا گیا، بانی پی ٹی آئی کے وکیل ادریس اشرف نے کہا ججز ٹرانسفر کی میعاد کا نوٹیفکیشن میں ذکر نہیں ہے ، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ججز ٹرانسفر کے عمل میں آرٹیکل 25 کو سامنے رکھا جائے ؟ اگر ججز کا ٹرانسفر دو سال کیلئے ہوتا تو کیا آپ اس پر مطمئن ہوتے ؟ اصل سوال سنیارٹی کا ہے ۔بعد ازاں سماعت آج صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی گئی، بانی پی ٹی آئی کے وکیل اپنے دلائل جاری رکھیں گے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں