پاکستان ، بھارت کے مذاکرات میں امریکی کردار ہوگا : وزیر اعظم

پاکستان ، بھارت کے مذاکرات میں امریکی کردار ہوگا : وزیر اعظم

اسلام آباد(سلمان غنی)وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا پاکستان بھارت کے قومی سلامتی مشیر سعودی عرب یا دبئی میں مذاکرات کرسکتے ہیں، امریکا بنیادی کردار ادا کرے گا، وہ وزیراعظم ہاؤس میں سینئراخبانویسوں اور اینکرز سے بات چیت کر رہے تھے، اس موقع پر وفاقی وزرا خواجہ آصف، احسن اقبال، عطا تارڑ ،اعظم نذیر تارڑ، سیکرٹری اطلاعات ودیگر حکام بھی موجود تھے۔

وزیراعظم نے کہا جنگی صورتحال میں بھارت کو اسرئیل کی معاونت بھی حاصل تھی اس کے ہتھیار اور ان کے فوجی معاونین سرینگر اور دیگرجگہوں پر ان کے ساتھ موجود تھے ، خدا تعالیٰ نے ہمیں عظیم فتح سے ہمکنار کیا اور ہمارے موقف کی بنا پر دنیا ہمارے ساتھ کھڑی ہوئی۔ سیز فائر کس کی وجہ سے ہوا یہ ڈھکا چھپا نہیں، امریکی وزیر خارجہ جو مجھ سے بار بار رابطہ کر رہے تھے تو ان سے رابطوں کے بعد ہی کر رہے تھے ، یہ سب کچھ کیوں ہو رہا تھا کہ بھارت زخمی تھا اور وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا تھا۔ بھارت کو دی جانے والی شکست کے بعد ہمارا ہدف معاشی استحکام ہے جس کیلئے ہم اپنی طے شدہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں، بھارت کو ہونے والی شکست ہماری اندرونی اتحاد اور یکجہتی کا ثمر ہے ،مسلح افواج نے بھرپور ردعمل کے ذریعہ قوم کو سرخرو کیا، سیز فائر کے بعد ڈی جی ایم اوز کی سطح پر مذاکرات کے ذریعے جنگی صورتحال سے پہلے کی سطح پر جانے کا فیصلہ ہوا۔ ہم کشمیر ،پانی اور دھشت گردی کے حوالے سے مذاکرات کے خواہاں ہیں۔ ہم نے ثالشی بھی قبول کی مگربھارت اس حوالے سے سنجیدہ نہیں۔

وزیر اعظم نے ایک سوال پر کہا بھارت سمجھتا تھا کہ پاکستان کسی جارحیت کا جواب نہیں دے گا مگر جواب آیا تو اس کے ہوش ٹھکانے آگئے اور وہ آج تک اسی کیفیت سے دوچار ہے ، سپہ سالار سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنانے کا فیصلہ مکمل طور پر حکومت کا تھا اور ان فیصلوں کو نواز شریف کی تائید حاصل تھی ، پاکستان اور بھارت زمانہ امن کی پوزیشن پر واپس آ رہے ہیں،ہم چاہتے ہیں کہ تنازعات بات چیت کے ذریعہ حل ہوں، کشمیریوں کو اپنے مستقبل کے تعین کا حق ملنا چاہیے ،ان کی جدوجہد اسی کیلئے ہے ، مذاکرات میں تیسرے ملک کی ثالثی بھی قبول ہے مگر بھارت کیوں آگے نہیں بڑھتا وہ توان پر بھی اعتماد کے لئے تیار نہیں جن سے اس کے تعلقات ہیں، دھشت گردی پر بات ہونی چاہیے ، پتا تو چلنا چاہیے کہ ایسا کون اور کیوں کرتا ہے ، انہوں نے پہلگام واقعہ پر ہماری تحقیقات کی پیشکش قبول نہیں کی، ایسا کیوں کیا بھارت میں دھشت گردی کے واقعات میں ان کے اپنے لوگ ملوث رہے ہیں، ٹرین دھشت گردی کے واقعہ میں ملوث ان کے کرنل کا بیان ریکارڈ پر ہے ۔ خضدار میں بچوں کی بس کا واقعہ بھی بھارت کا کیا دھرا ہے ۔ بلوچستان میں ان کا نیٹ ورک ڈھکا چھپا نہیں، کلبھوشن کون تھا اس سے بڑی مثال کیا ہے ،ہم اپنا ہاؤس ان آرڈر کر رہے ہیں ،ہمارے ہاں دھشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ،ہم نے دھشت گردی سے اپنی زمین بھی پاک کرنی ہے اور دھشت گردوں کو ان کے انجام تک بھی پہنچانا ہے ۔ اپوزیشن سے مذاکرات سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا میں نے تو پارلیمنٹ کے پلیٹ فام سے بیرسٹر گوہر کی موجودگی میں مذاکرات کی پیشکش کی تھی اور کہا تھا اس حوالے سے سپیکر آفس کے ذریعہ مل بیٹھتے ہیں مگر کوئی جواب نہیں آیا۔

پختونخوا میں بدنظمی اور مختلف اضلاع میں رٹ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا ہم نے انہیں آٹھ سو ارب دئیے، ان سے پوچھیں کہ انہوں نے یہ کہاں خرچ کئے ، انہوں نے سی ٹی ڈی کیوں نہیں بنایا، صوبائی حکومت نے امن و امان کے بارے میں ذمہ داری کیوں پوری نہیں کی ۔ایک اور سوال پر بھارتی لیڈر شپ کے جارحانہ عزائم کے بارے میں انہوں نے کہا ان کی تکلیف سب کو معلوم ہے ، وہ چاہتے کیا تھے ، ان کے ساتھ ہوا کیا ۔انہوں نے مختلف سوالات کے جوابات میں فیلڈ مارشل عاصم منیر ،ائیر چیف مارشل ظہیر بابر اور ایڈمرل ندیم اشرف کے نام لیکر ان کو داد شجاعت دیا اور کہا کہ ہم نے اکہتر کا بدلہ لیا اور دنیا کو بتا دیا پاکستان ناقابل تسخیر ہے اور بھارت کو سبق سکھا دیا کہ جارحیت کا جواب ایسا ہی ملے گا ،انہوں نے پانی کے حوالے سے واضح کیا کہ اس پر کمپرومائز کا سوال ہی نہیں۔ وزیراعظم نے جنگ بندی پر صدر ٹرمپ کے مثبت کردار کو بھی سراہا اور کہا کہ مذاکرات دبئی، سعودی عرب میں ہو سکتے ہیں اس میں امریکی کردار ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ مذاکرات کشمیر، پانی اور دھشت گردی پر ہو سکتے ہیں۔ایک موقع پر صحافیوں نے سوال کیا کہ آرمی چیف کو تو فیلڈ مارشل بنادیا گیا ہے ، آپ کیا بنے ہیں، وزیراعظم نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ مجھے پولیٹیکل فیلڈ مارشل کہہ لیں۔ صحافیوں نے سوال کیا کہ تحریک انصاف کے لوگوں کو دیگر ممالک میں بھیجے جانے والے وفود میں شامل کیوں نہیں کیا گیا، وزیراعظم نے جواب دیا کہ دیگر ممالک میں جو وفود جا رہے ہیں وہ حکومتی سطح پر جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو مذاکرات میں بٹھا کر رسک نہیں لے سکتے ،ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے کچھ لوگوں نے بھارتی چینلز پر بیٹھ کرجو گفتگو کی ہے ، اس کے بعد کیا ہم یہ رسک لے سکتے ہیں کہ ان کو ایسے مذاکرات میں جاکر بٹھایا جائے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی یہ اللہ جانتاہے ہم صرف اپناکام کرتے ہیں ہمیں اس کے علاوہ کوئی بات نہیں کرنی۔

وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف ہمارے لیڈر ہیں وہ ہرجگہ ہمارے ساتھ موجود ہیں، نوازشریف صاحب کا بڑا تجربہ ہے جب بھی مذاکرات شروع ہوں گے تو نواز شریف کے وژن کا فائدہ اٹھائیں گے ، بھارت اب بھی کہہ رہا ہے ہمارا شملہ معاہدہ موجود ہے بات چیت دوطرفہ ہونی چاہئے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ڈی جی ملٹری آپریشنز کی گفتگو میں یہ طے پایا کہ دونوں ممالک کی افواج جنگ سے پہلی پوزیشن پر جائیں گی، دونوں ممالک کی افواج پہلے والی پوزیشن پر کب جائیں گی اس کاٹائم فریم نہیں بتا سکتے ۔ ہم نے بھارت کو ایسا جواب دیا کہ اس کاگھمنڈ توڑدیا، ہم چاہتے ہیں کہ ہماری خوشحالی اوردفاع ساتھ ساتھ چلیں۔ ہم علاقے میں امن چاہتے تھے اور اس جنگ کی آگ کو بڑھانا نہیں چاہتے تھے جس کی وجہ سے ہم نے تحمل کامظاہرہ کیاورنہ ہم ان کے پرخچے اڑاسکتے تھے ، جنگ کے دوران ہمارے تمام دفاعی اداروں میں مکمل کوآرڈی نیشن موجود تھا۔وزیراعظم نے ہنستے ہوئے کہا آج بھی ہم نے چینی ٹیکنالوجی کابھرپورفائدہ اٹھایا ہے ، ہم دنیا بھرمیں چین کی مارکیٹنگ کنٹری بن گئے ہیں، جنگ کے دوران ترکیہ، سعودی عرب، یواے ای، آذربائیجان نے ہمارا بے پناہ ساتھ دیا، چین ہمارے ساتھ مکمل طور پر کھڑا ہے ۔دریں اثنا وزیراعظم نے کم لاگت رہائشی منصوبوں کیلئے ہاؤسنگ کی ٹاسک فورس کے جائزہ اجلاس کی صدارت کی اور کہا حکومت کی اولین ترجیح ہے کہ کم لاگت ہاؤسنگ منصوبوں سے گھروں کے حصول میں آسانی پیدا کرے ۔ کم لاگت ہاؤسنگ منصوبوں سے نہ صرف رہائشی منصوبے عام آدمی کی دسترس میں آئیں گے بلکہ ملکی معیشت ترقی کرے گی اور روزگار کے مواقع پیدا ہونگے ، کم لاگت رہائشی منصوبوں کی فنانسنگ کی سفارشات کو بجٹ تجاویز کا حصہ بنایا جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں