امریکہ پسپائی اختیار کریگا تو پاک بھارت تنائوخطرناک ہو سکتا

امریکہ پسپائی اختیار کریگا تو پاک بھارت تنائوخطرناک ہو سکتا

(تجزیہ:سلمان غنی) بھارت کی جانب سے پاک انڈیا تعلقات اور تنازعات میں کسی تیسرے ملک کی ثالثی سے انکار بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے تنازعات کے حل بارے انکے مخصوص ذہن ضد، ہٹ دھرمی اور تنازعات کے حل میں عدم دلچسپی کا واضح اظہار ہے، مطلب یہ کہ وہ نہ تو خود ایشوز خصوصاً کشمیر و پانی پر پاکستان کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار ہے اور جب ان سلگتے ایشوز پر ثالثی کی بات آتی ہے تو وہ اس سے بھی انکاری ہے لہذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ آخر بھارت کا کسی کی ثالثی سے انکار،ایشوز پر تنائواور ٹکرائو کا عمل کب تک جاری رہے گا۔

اب ایک مرتبہ پھر جب واشنگٹن میں پاکستانی سپہ سالار کی امریکی صدر ٹرمپ اور دیگر امریکی ذمہ داران سے ملاقاتیں ہو رہی تھیں تو نریندر مودی نے پھر سے ثالثی سے انکار کر دیا جسے ماہرین خود پاکستان سے زیادہ امریکہ کیلئے پیغام قرار دے رہے ہیں اور بڑا سوال یہی ہوگا کہ اگر بھارت اور اسکی سرکار تو مذاکرات پر تیار نظر آ رہی ہے اور نہ ہی کسی تیسرے ملک کی ثالثی پرتیار ہے تو پھر اس خطہ پر اسکے اثرات اور خصوصاً تنازعات کے حل پر پیش رفت کیسے ہو گی ۔صدر ٹرمپ نے کشمیر ایشو کا ذکر کر کے پھر اسے عالمی حیثیت دے دی اور دنیا سمجھتی ہے کہ پاک انڈیا کا حل تبھی ہوگا جب کشمیر پر پیش رفت ہوگی ۔ حالات بدل رہے ہیں دنیا تبدیل ہو رہی ہے خاص طور پر پہلگام واقعہ نے پاک انڈیا تنازعات کو پھر سے اہمیت دے دی ہے اور نریندر مودی اس تبدیلی کو محسوس نہیں کر رہے اوراب خود امریکہ بھی بھارت کے ایشو کے ساتھ کھڑا نظر نہیں آ رہا ۔

لہذا اس حوالے سے گیند خود امریکہ کی کورٹ میں ہے اور صدر ٹرمپ پاک انڈیا تنازعات اور مذاکرات بارے اپنے کردار سے بھارت کے انحراف پر کیا کریں گے یہ دیکھنا ہوگا اگر امریکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر ہی عمل درآمد کیلئے موقف اختیار کرے تو پھر بھارت کے پلے کچھ نہیں رہے گا لیکن اتنا ضرور ہوگا کہ بھارت اپنے علاقائی اتحادی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ بارے کہا جا رہا ہے کہ وہ مذاکرات پر پیش رفت تو چاہتے ہیں لیکن بھارت کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے اور بھارت امریکہ کے اس کردار کو تسلیم بھی نہیں کرنا چاہتا اور اس سے تعاون سے بھی گریزاں ہے لہذا یہ صورتحال خود امریکہ کیلئے بڑا امتحان ہوگی اور اگر امریکہ مذاکرات پرپسپائی اختیار کرتا ہے تو پھر پاک بھارت تنائوخطرناک ہو سکتا ہے اور بھارت کو امریکی تائید بھی حاصل نہیں ہو گی جہاں تک واشنگٹن میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کی زبردست پذیرائی خصوصاً صدر ٹرمپ اور امریکی ذمہ داران سے ملاقاتوں کا تعلق ہے تو یہ خود بھارت کیلئے بھی پیغام ہے کہ امریکہ پا کستان کی علاقائی اہمیت و حیثیت کو بھی تسلیم کرتا ہے اور اس کو نظر انداز کرنے کی پالیسی پر نظرثانی کر چکا ہے کیونکہ امریکی میڈیا کے مطابق امریکہ کی جانب سے پاکستان کو نظر انداز کرنے کا پاکستان کو بڑا فائدہ یہ ہوا کہ چین پاکستان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوا اور پاک چین دوستی اب اس خطہ میں بڑی حقیقت بن کر سامنے آئی ہے جس نے خطے کا نقشہ ہی بدل ڈالا ہے اور پاک بھارت میں طاقت کا ایسا توازن قائم کر دیا ہے کہ بھارت پاکستان پر جارحیت کے حوالے سے سو مرتبہ سوچے گا۔لہذا مستقبل قریب میں پاک بھارت مذاکرات ممکن بن پائیں گے البتہ ہو سکتا ہے کہ یہ بیک ڈور ہوں اور اس میں ثالثی امریکہ کی بجائے ان کا جنوبی ایشیا میں اتحادی کوئی اور ملک کرے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں