مخصوص نشستیں:کیا سپریم کورٹ کوبے پناہ اختیارات ہیں؟کوئی حد توہونی چاہیے:آئینی بینچ
اسلام آباد، لاہور (کورٹ رپورٹر،دنیانیوز، مانیٹرنگ ڈیسک )سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کیا سپریم کورٹ کو بے پناہ اختیارات ہیں؟ کوئی حد تو ہونی چاہیے !جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کیخلاف نظرثانی کیس کی سماعت کی۔
جس میں کنول شوذب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا اس عدالت کی ذمے داری ہے کہ بنیادی حقوق کی حفاظت کرے ، یہ ذمے داری آئین نے دی ہے ،جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیسے اس کیس میں آرٹیکل 187 لاگو ہوتا ہے ؟ وکیل نے کہا اس بارے میں آگے جا کر تفصیل سے بتاؤں گا، سپریم کورٹ کے پاس زیادہ اختیار ہے ، سپریم کورٹ آرٹیکل 187 اور 184 کو اکٹھے استعمال کر کے مکمل انصاف کر سکتی ہے ،جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا آرٹیکل 184/3 کا استعمال عوامی مفاد میں ہوتا ہے ؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ جی بالکل سپریم کورٹ 184/3 کا استعمال پبلک انٹرسٹ اور بنیادی حقوق کیلئے کر سکتی ہے ، جب تباہی ہو جائے تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون سا آرٹیکل ہے ، پھر سپریم کورٹ کو آگے آنا پڑتا ہے جو ضروری ہو کرنا چاہیے ۔جسٹس صلاح الدین پنہور نے پوچھا کہ آپ کے خیال سے سپریم کورٹ کے اختیارات کی حد کیا ہے ؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا میرے برادر جج کا کہنا ہے کہ اختیارات کی کوئی حد تو ہونی چاہیے ، کیا سپریم کورٹ کو ہر کیس میں بے پناہ اختیارات حاصل ہیں؟ مخصوص نشستوں کیس کے اکثریتی فیصلے میں کیا کوئی آئینی یا قانونی خلاف ورزی ہوئی ہے ؟ سلمان اکرم راجہ نے کہاسپریم کورٹ فیصلے میں کوئی تجاوز نہیں کیا گیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ اختیار استعمال کرتے ہوئے آرٹیکل کا لکھنا لازمی ہے ؟ کیا سپریم کورٹ کچھ بھی کر سکتی ہے ؟ کل کو پھر ہم کہہ دیں کہ وزیر اعظم فارغ ہے ، جواب میں وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا سپریم کورٹ آئینی اختیارات کہیں بھی استعمال کر سکتی ہے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا مخصوص نشستوں کے فیصلے میں کیا آئین و قانون کی خلاف ورزی ہوئی، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے میں کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، آزاد امیدواروں کو 3 دن کے بجائے 15 روز میں پارٹی شمولیت کا اختیار دیا گیا، اگر 15 روز کا وقت نہ دیا جاتا تو قانون کے مطابق اور کوئی حل ہی نہیں تھا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا ایک وکیل آخری وقت تک سیکھتا رہتا ہے ،جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ایک سیاسی جماعت کے سیکرٹری کے طور پر بھی آپ کی کچھ ذمے داریاں ہیں، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہاوہ ذمے داریاں باہر میں ادا کرتا رہوں گا، بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ، لیکن یہاں صرف وکیل ہوں۔
ملک میں کبھی براہ راست مارشل لاء تو کبھی انڈر دی کلر آف لاء 58 ٹو بی کے استعمال میں واقعات رونما ہوئے ،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آپ پرانی تاریخ بیان کر رہے ہیں، سپریم کورٹ فیصلہ دیتی ہے تو یہاں ایسا بھی ہوا سیاست دانوں نے عمل نہیں کئے ، ہر دور میں ایک سیاسی جماعت بینیفشری رہی ہے ،سلمان اکرم راجہ نے کہا اس سوال کا جواب میں عدالت سے باہر جا کر دوں گا، سپریم کورٹ کے 11 ججوں نے مصنوعی حقائق کے بجائے پردے کے پیچھے چھپے حقائق کو تسلیم کیا، ایسا نہیں ہوتا وہ جرم جو قلم نہ لکھے وہ جرم ہی نہیں ہوتا، ایسا نہیں ہوتا اگر ایف آئی آر درج نہ ہو تو اسے وقوعہ ہی نہ سمجھا جائے ۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت پیر ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی۔لاہور ہائیکورٹ میں الیکشن ایکٹ میں ترامیم اور تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے اقدام کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی، ہائیکورٹ نے درخواست پر مزید کارروائی 10 جولائی تک ملتوی کر دی، لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس خالد اسحاق نے شہری منیر احمد کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔