ایران اسرائیل جنگ میں امریکا کے رویہ میں نرمی نظر آرہی ہے

ایران اسرائیل جنگ میں امریکا کے رویہ میں نرمی نظر آرہی ہے

(تجزیہ: سلمان غنی) ایران اور اسرائیل پسپائی کیلئے تیار نظر نہیں آ رہے جبکہ ایران کے ردعمل کے حوالہ سے یہ تاثر غارت نظر آ رہا ہے کہ ایران اسرائیل کی جارحیت اور بڑے حملوں کے جواب میں پسپائی اختیار کرلے گا اور اسرائیلی جارحیت کے مقاصد پورے ہو جائیں گے ۔

 یہ ضرور ہوا کہ امریکا جو اسرائیل کی پشت پر رہا ہے ، جارحیت کے جواب میں یہ کہتا نظر آ رہا تھا کہ تہران خالی کر دیں اور یہ کہ آیت اﷲ خامنہ ای ہمارے ٹارگٹ پر ہے ۔ ایران کی فضائیں ہماری دسترس میں ہیں اب اس کے رویے میں نرمی نظر آ رہی ہے ، ایسا کیوں ہے اور کیا اس جنگ کا ڈراپ سین ہو پائے گا ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ایک جنگ کا براہ راست حصہ بنتا ہے تو اس کے اثرات کو سمیٹنا خود اس کیلئے آسان نہیں ہوگا اور اس کی کوشش ہوگی کہ ایران کو عالمی نظم کا حصہ بنایا جائے ، بیانات اور اعلانات اپنی جگہ لیکن ایران یہ چاہتا ہے کہ جنگ کی طوالت خود اس کیلئے نقصان دہ ہے جہاں تک پاکستان کے کردار کا تعلق ہے تو پاکستان نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایران کے حق دفاع کی حمایت کی تھی اوراس پر کاربند ہے ۔

اس حوالے سے اپنا کردار بھی ادا کرتا نظر آ رہا ہے اس بنا پر ہی صدر ٹرمپ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کے بعد گفتگو میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ایران کو پاکستان سے بہتر کوئی نہیں جانتا ۔ پاکستان نہیں چاہے گا کہ یہ جنگ پھیلے اگر پاکستان کو کوئی بھی اس کا مثبت کردار ادا کرنے کو کہے گا تو پاکستان اپنا مثبت کردار ادا کرے گا ۔ پاکستان کا کردار ، عالم اسلام اور خطے کیلئے امن کی نوید بن سکتا ہے ۔ ایک ایسے موقع پر جب بھارت عالمی سیاست میں غیر متعلق کھڑا ہے ایک عالمی تنازع میں پاکستان کے کردار اور اہمیت کا اعتراف ایک بڑی سفارتی پیش رفت ہے اس لئے کہ اس سے پاک امریکا تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں ۔ اس سے عالمی امن میں مدد مل سکتی ہے ۔موجودہ صورتحال نے خود صدر ٹرمپ کے بیانات اور اسرائیل کی مہلک ہتھیاروں کی فراہمی سے امریکا کی لاتعلقی کے بیانیہ کو مشکوک بنا دیا ہے ، اب جو رجیم چینج کا بیانیہ بچا ، وہ بھی قابل عمل نظر نہیں آ رہا ، اسرائیلی جارحیت کے بعد ایران میں رجیم چینج کا تحفظ اتنا ہی اہم بن گیا ہے۔

کہ خود ایران کا اپنا دفاع ایران کے صدر اور خصوصاً سپریم لیڈر آیت اﷲ خامنہ ای نے قوم کو اتنے بڑے صدمے میں ہمت اور حوصلہ دینے اور اٹھ کھڑا ہونے میں بے حد اہم کردار ادا کیا ہے ایران کے عوام اپنی اس لیڈر شپ بارے تحفظات رکھتے ہوں گے لیکن دشمن کے خلاف پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بنی کھڑی نظر آ رہی ہے ویسے بھی ایرانی اپنے دشمنوں کو اکسانے پر حکومت تبدیل کریں گے اور نہ ہی کسی پٹھو کو قبول کریں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس خود علاقائی حالات پر تجزیہ کار کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اگر مزید چند روز ایران کے بیلسٹک میزائل اسرائیلی عمارات سے ٹکراتے نظر آئے اور ایرانی لیڈر شپ محفوظ رہی تو پھر اس جنگ میں بڑا اپ سیٹ ہوسکتا ہے جس کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں ۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ ایران اسرائیل جنگ مشرق وسطیٰ کے سیاسی نقشہ کو یکسر تبدیل کردے گی لیکن نتائج امریکی مقاصدکے مطابق نہیں ہوں گے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں