روس کا افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرنا مغربی اتحاد کو چیلنج

روس کا افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرنا مغربی اتحاد کو چیلنج

تجزیہ:سلمان غنی روس کی جانب سے افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے عمل کو خطے میں ایک اہم پیشرفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ،روس و افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے ۔

روس سمجھتا ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت مستحکم ہے اورمتبادل سیاسی قوتیں کمزور ہیں اور اس صورتحال میں طالبان انتظامیہ سے روابط ہی مستقبل کا راستہ ہے اور اس طرح سے روس نے مغربی اتحاد کے اثر و رسوخ کو بھی چیلنج کر دیا ،ویسے بھی اس خطہ میں چین، روس ،پاکستان ،ایران اور وسطی ایشیائی ریاستیں مل کر ا یک نیا علاقائی توازن قائم کرنے کی کوششوں میں ہیں جس میں افغانستان اور طالبان حکومت کو بھی اہمیت دی جا رہی ہے ۔ ا س بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ روس کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا عمل شروعات ہے اور مستقبل قریب میں اس حوالہ سے چین ،ایران ،پاکستان اور وسطیٰ ایشیا قوتیں بھی اس حکومت کو تسلیم کر سکتی ہیں۔ پاکستان حال ہی میں کابل میں اپنے سفارتی سٹیٹس میں تبدیلی لاتے ہوئے سفیر تعینات کر رہا ہے چین اور ایشیائی ریاستیں افغانستان سے تجارتی تعلقات قائم کر چکی ہیں لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ آخر افغانستان کی نئی صورتحال میں اہمیت کیوں بنی اور اب اہم ممالک طالبان حکومت کو تسلیم کرتے کیوں نظر آ رہے ہیں ۔

موجودہ حالات میں افغانستان کی بڑی اہمیت یہاں معدنی وسائل کا موجود ہونا اور تعمیر اور انفراسٹرکچر کے مواقع ہیں اور روس مستقبل میں معدنیات اور توانائی کے شعبوں میں داخل ہونا چاہتا ہے اور یہ سارا عمل طالبان کی آشیر باد کے بغیرممکن نہیں ،ویسے بھی روس میں بڑی تعداد میں مسلمان موجود ہیں اور اپنے اس عمل کے ذریعہ وہ مسلم ممالک میں اپنا سافٹ امیج بہتر بنانا چاہتا ہے ویسے تو تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ایک وقت تھا کہ روس نے افغانستان پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے 1979میں یہاں اپنی فوجیں اتاریں تھیں لیکن وہ یہاں سے آنے والے ردعمل اور خصوصاً اس میں پاکستانی کردار کے باعث یہاں اپنا تسلط نہ جما سکا تھا اور اسے واپس جانا تھا بعد ازاں یہی عمل امریکا نے دہرایا اور روس جیسے انجام سے ہی دوچار ہو کر واپس ہوا۔

اس کی واپسی میں بھی پاکستان کا کردار تھا اور بعد ازاں یہاں طالبان انتظامیہ کی حکمرانی میں پاکستان نے ہی بنیادی کردار ادا کیا ، لہٰذا اس مرحلہ پر روس کی جانب طالبان حکومت کوتسلیم کرنے کا عمل اس امر کا بھی اظہار ہے کہ امریکا کے انخلا کے بعد روس خود کو خطے میں ایک نئے ضامن اور ثالث کے طور پر متعارف کرا رہا ہے اور یہ خطے میں نئی صف بندیوں ،طاقت کے توازن اور مغربی اثر سے آزادی کی طرف ایک بڑا اشارہ ہے ۔روس کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے عمل میں ٹائمنگ کو اہمیت حاصل ہے اور اس لئے کہ خطے میں خطے کے مسائل پر خطے میں اقدامات کی بات ہو رہی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف آذر بائیجان کانفرنس میں اس خطے کی قیادت سے ملتے ہوئے اس طرح کا میسجز دیتے نظر آ رہے ہیں کہ ہمیں اپنے مسائل کا حل خود نکالنا ہے اور یہ سب مل جل کر ہی ممکن ہے یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ مغرب اور امریکا کے مقابلہ میں ایک نیا بلاک بننے جا رہا ہے جس میں چین روس افغانستان اور ایران کا کردار اہم ہوگا ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں