کل جماعتی کانفرنس میں بریفنگ بہت حد تک حقیقت پسندانہ تھی

کل جماعتی کانفرنس میں بریفنگ بہت حد تک حقیقت پسندانہ تھی

(تجزیہ: سلمان غنی) تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان کے تحت منعقدہ کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیہ میں ملکی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایک جامع حکمتِ عملی کی تشکیل کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اعلامیہ میں یہ مطالبہ بھی شامل تھا۔

کہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں بشمول ماہ رنگ بلوچ کو فوری طور پر رہا کیا جائے ۔بلاشبہ اجلاس میں دی گئی بریفنگ بہت حد تک حقیقت پسندانہ تھی اور زمینی حقائق کا اعتراف کیا گیا، لیکن آج جس قومی مکالمے (ڈائیلاگ) کی بات کی جا رہی ہے ، اس میں سب سے بڑی رکاوٹ خود بانی پی ٹی آئی عمران خان ہیں، جو بار بار یہ مؤقف دہراتے ہیں کہ وہ صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کریں گے ۔ وہ اس سلسلے میں کئی کوششیں بھی کر چکے ہیں، لیکن مقتدر حلقے اب ایک واضح اور اصولی مؤقف پر قائم نظر آتے ہیں کہ اگر کسی اپوزیشن جماعت سے بات کرنی ہے تو وہ حکومت کرے ۔جب حکومت مذاکرات کی پیش کش کرتی ہے تو اپوزیشن اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیتی ہے کہ وہ اس ضمن میں بااختیار نہیں۔ لہٰذا قومی ڈائیلاگ کی تجویز اگرچہ بروقت اور صائب ہے ، مگر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس پر بانی پی ٹی آئی کا ردعمل کیا ہوگا۔ وہ جس سسٹم کو "ہائبرڈ" قرار دیتے ہیں، اسی میں کبھی "ون پیج" پر فخر بھی کرتے تھے ۔ وہی عمران خان اپوزیشن رہنماؤں کو چور اور ڈاکو کہہ کر جیلوں میں ڈالنے کی دھمکیاں بھی دیا کرتے تھے ۔اس لیے کسی بھی قومی ڈائیلاگ سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بانی پی ٹی آئی واقعی اس مکالمے کو ضروری سمجھتے ہیں یا ان کی ترجیح اہل سیاست نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ ہی رہے گی؟جہاں تک سیاسی اسیران کی رہائی کا تعلق ہے ، تو بلاشبہ کسی بھی سیاسی کارکن کے ساتھ زور زبردستی نہیں ہونی چاہیے اور ان کے خلاف مقدمات میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جانے چاہییں۔ تاہم اعلامیہ میں یہ واضح کیا جانا چاہیے تھا کہ جن افراد کو عدالتوں سے سزائیں ہو چکی ہیں، ان کے خلاف فیصلے کس بنیاد پر آئے اور ان سزاؤں پر اعتراض کی کیا گنجائش ہے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک سیاسی جدوجہد کے نام پر اپنے ہی ملک کے دفاعی اداروں، قومی املاک اور شہدا کے مزاروں پر حملہ کیا جائے ؟بلوچستان کے مسائل کا ذکر درست ہے ، لیکن اس کے ساتھ مسائل کے سیاسی حل بھی تجویز کیے جانے چاہییں۔ اگر کوئی شخص دشمن کے ایجنڈے پر عمل کرتا پایا جائے تو کیا قانون کا دائرہ اس پر نہیں ہونا چاہیے ؟ بلاشبہ بلوچستان میں احساسِ محرومی کے خاتمے کی ضرورت ہے اور صوبائی حکومتوں کو بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔ انہیں ملنے والے وسائل عوام کی فلاح و بہبود پر صرف ہونے چاہییں۔اعلامیہ میں مہنگائی، بے روزگاری اور گورننس جیسے عوامی مسائل کا ذکر حقیقت پسندانہ ہے ، اور یہ معاملات سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کی اولین ترجیح ہونے چاہئیں۔ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہر حکومت عوام کے نام پر اقتدار میں آتی ہے ، مگر عوام کو ریلیف فراہم نہیں کر پاتی۔ حکمران اپنی عیاشیاں تو جاری رکھتے ہیں، لیکن عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی زحمت نہیں کرتے ۔کیا پی ٹی آئی کی حکومت میں عوام کو ریلیف ملا؟ کیا اس دور میں بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ نہیں ہوا؟ لہٰذا جب تک سیاسی جماعتیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے کو تیار نہیں ہوں گی اور اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی نہیں کریں گی، تب تک ملک کو درپیش مسائل کے حل کی طرف پیش رفت ممکن نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں