پاکستان اور ایران کی قربت سے بھارت پسپائی پر مجبور

پاکستان اور ایران کی قربت سے بھارت پسپائی پر مجبور

(تجزیہ: سلمان غنی) ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کے دورۂ اسلام آباد کو موجودہ علاقائی حالات اور دوطرفہ تعلقات، بالخصوص تجارتی و معاشی تناظر میں خاصی اہمیت حاصل ہے ۔

ماہرین اس دورے کو تہران اور اسلام آباد کے مابین نئے جذبے اور گرمجوشی کی علامت قرار دے رہے ہیں۔ایرانی صدر نے اپنے دورے کا آغاز لاہور سے کیا، جہاں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ان کا استقبال کیا۔ وفد کے ہمراہ صدر ایران نے مزار اقبالؒ پر حاضری دی، جو ایرانی قیادت کی دیرینہ روایت ہے ۔ ان کے لیے علامہ اقبال نہ صرف فکری رہنما بلکہ نظریاتی ہم آہنگی کی علامت بھی ہیں۔پاکستان اور ایران کے درمیان تاریخی، جغرافیائی اور نظریاتی رشتے موجود ہیں۔ ایران، پاکستان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا، اور پاکستان نے 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد وہاں کی نئی حکومت کو سب سے پہلے تسلیم کیا۔ اگرچہ دونوں ممالک کے تعلقات میں وقتاً فوقتاً اتار چڑھاؤ آتے رہے ، لیکن کبھی مکمل تعطل یا کشیدگی کی کیفیت نہیں بنی۔ایران نے پاک بھارت کشیدگی کے دوران غیرجانبداری اختیار کرتے ہوئے جنگ بندی کی کوششیں کیں، جبکہ پاکستان نے حالیہ ایران-اسرائیل کشیدگی میں کھل کر ایران کا ساتھ دیا اور اسرائیل کے خلاف عالمی فورمز پر آواز بلند کی۔

اس کے برعکس بھارت نے اسرائیل کی حمایت کا انتخاب کیا، جس پر ایرانی قیادت نے ناراضی کا اظہار کیا اور پاکستان کو \"عظیم دوست\" قرار دیا۔اب اطلاعات ہیں کہ ایران چین کے ساتھ سلک روڈ منصوبے اور پاکستان کے سی پیک کو یمن کے ذریعے جوڑنے کی حکمتِ عملی پر کام کر رہا ہے ، جس سے خطے میں معاشی توازن تبدیل ہو رہا ہے ۔ چین کی ایران اور پاکستان میں بڑھتی سرمایہ کاری نے بھارت کو معاشی و سفارتی طور پر دباؤ میں لا کھڑا کیا ہے ۔ یہی وہ پیش رفت ہے جس نے بھارت کو پسپائی پر مجبور کیا ہے ۔ایرانی صدر کا یہ دورہ پاک چین معاشی تعاون کے تناظر میں بھی کلیدی اہمیت رکھتا ہے ۔ اسلام آباد میں مختلف معاہدوں پر دستخط متوقع ہیں، اور اطلاعات کے مطابق دونوں ممالک نے سکیورٹی اور انٹیلی جنس امور میں قریبی اشتراک پر بھی بات چیت کی ہے ۔

یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں نئی جہت متعارف کرا سکتا ہے ۔ایک اہم پہلو پاک ایران گیس لائن منصوبہ ہے ، جس پر امریکی تحفظات اپنی جگہ موجود ہیں، تاہم توانائی کے موجودہ بحران میں یہ منصوبہ پاکستان کے لیے غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے ۔ سفارتی حلقے اس منصوبے کو اہم سنگِ میل قرار دے رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اس منصوبے پر عملی پیش رفت کر پائے گا؟ اس پر فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی پالیسی میں اب معاشی مفادات اولین حیثیت اختیار کر چکے ہیں، اور نئی عالمی ترجیحات کے باعث اب کسی ملک کے لیے دوسرے ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات پر قدغن لگانا آسان نہیں رہا۔ایرانی صدر کے ہمراہ سستان و بلوچستان کے حکام کی شمولیت اس بات کا اشارہ ہے کہ دورے کا ایک اہم مقصد **سرحدی تجارت** سے متعلق مسائل کو حل کرنا ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک نے سرحدی ٹریڈ زون کے قیام پر اتفاق کر لیا ہے تاکہ منظم تجارت کو فروغ ملے اور سمگلنگ کا مؤثر خاتمہ ممکن ہو سکے ۔یہ دورہ بلاشبہ پاکستان اور ایران کے درمیان دوطرفہ تعلقات، سکیورٹی تعاون اور معاشی شراکت داری کو ایک نئی سطح پر لے جانے کی بنیاد بن سکتا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں