دوحا پر حملہ :اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکراتی عمل ختم
(تجزیہ:سلمان غنی) دوحا میں اسرائیلی جنگی طیاروں کے ذریعہ حماس رہنماؤں پر حملے کو اس اسرائیلی جنگی حکمت عملی کا شاخسانہ سمجھا جارہا ہے جس کے تحت وہ اپنے کسی بھی مخالف کو کبھی بھی کہیں بھی ٹارگٹ کرسکتا ہے اور اسے اپنی اس جارحانہ حکمت عملی پر نہ تو قوانین کی پروا ہے اور نہ ہی کسی ملک کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا پاس ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اس نے حماس رہنماؤں کی موجودگی کو بنیاد بناکر حماس رہنماؤں کو ٹارگٹ کیا۔سینئر حماس رہنما خلیل الحیہ سمیت چھ افراد شہید ہوگئے ہیں، البتہ حماس کا موقف ہے کہ ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا۔اجلاس بارے کہا جارہا ہے کہ یہ امریکی صدر کی جانب سے غزہ پر فائر بندی پر غور کیلئے بلایا گیا تھا۔لہٰذا اس امر کا جائزہ ضروری ہے کہ آخر اسرائیل کی جانب سے اس جارحانہ حکمت عملی کے مقاصد کیا ہیں۔ کسی دوسرے ملک پر حملوں کے اس سلسلہ کو جنگ قرار دیا جاسکتا ہے اور دوحا پر ہونے والے اس حملہ کے خطہ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ جہاں تک دوحامیں ہونے والے اس حملہ کا سوال ہے تو دوحا کو مختلف ممالک اور عالمی وعلاقائی ایشو ز میں بات چیت کے مرکز کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کی ان سرگرمیوں کامقصد مبینہ ایشوز پر بات چیت کے ذریعہ حل میں مدد دینا ہے ۔ اس سے قبل امریکہ اور طالبان کے درمیان بھی مذاکراتی عمل دوحا میں ہوا تھا اور دوحامعاہدہ کے نتیجہ میں ہی طالبان کو افغانستان میں حکومت ملی تھی۔ اب بھی حماس کے ساتھ جنگ بندی کے عمل بارے مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا اور حماس کی لیڈر شپ مذاکراتی عمل میں شامل تھی، لیکن اسرائیل نے دوحا پر حملہ کے ذریعے نہ صرف جنگ بندی کی کوششوں کو دبا دیابلکہ خود قطر کو بھی یہ پیغام دیدیا کہ وہ مخالفین کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گا اور اس مقصد کیلئے حملہ سے بھی گریز نہیں کرے گا ۔
دوسری جانب قطر کی جانب سے شدید ردعمل آیاہے ۔قطری وزارت خارجہ کے ترجمان کاکہنا ہے کہ اسرائیل کا یہ مجرمانہ حملہ تمام عالمی قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہے ،یہ قطری شہریوں اور وہاں مقیم افراد کی سلامتی وتحفظ کیلئے خطرہ ہے ۔جہاں تک حماس کی لیڈر شپ پر حملہ کا سوال ہے تو حماس کی لیڈر شپ یہاں طویل عرصہ سے مقیم ہے اور یہاں قطر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کیلئے مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کررہاتھا ۔لہٰذا حملہ کے بعد اب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کیلئے جاری مذاکراتی عمل ختم ہوگیا ۔اب اس کے بعد جنگ بندی کیلئے کوششوں کی بحالی کے فی الحال امکانات نظر نہیں آرہے ،البتہ اس اسرائیلی حملہ کو عالم عرب کیلئے نمبر1چیلنج قرار دیا جارہا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دوحا پر اسرائیلی حملہ عربوں کیلئے کھلا پیغام ہے ۔ اسرائیل ظاہر کررہا ہے کہ وہ اپنی جنگ کو صرف غزہ یا ایران تک محدود نہیں رکھ رہا بلکہ خطے کے ان ممالک کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے ۔قطر ایل این جی ایکسپورٹر ہے ۔اس سے عالمی بحران پیدا ہوسکتا ہے اور جنگ کا دائرہ کار عالمی سطح پر کھل سکتا ہے ۔ لہذا ایران کے بعد دوحا پر اسرائیلی حملہ غزہ کی جنگ کو خلیج اور پھر عالمی سطح تک پھیلانے کا واضح اشارہ ہے ۔دیکھنا ہوگا کہ کیا عرب حکمران اسرائیل کے خلاف کوئی مشترکہ اور مؤثر حکمت عملی تیار کرتے ہیں ،کیونکہ ماہرین اس حملے کو عالم عرب کیلئے پیغام قرار دے رہے ہیں۔