اسلام آباد سے 25کروڑ افراد کیلئے کچھ کرنا ممکن نہیں،چھوٹے صوبے بنانا ہونگے:میاں عامر محمود

اسلام  آباد  سے 25کروڑ  افراد  کیلئے  کچھ  کرنا  ممکن  نہیں،چھوٹے  صوبے  بنانا ہونگے:میاں عامر محمود

بڑے ممالک نے عوام کی خدمت کیلئے ایڈمنسٹریٹو یونٹس کو وقت کیساتھ چھوٹا کیا،ہمارے 4صوبوں کی کوئی ترتیب نہیں پنجاب ملک ہوتا تو 13واں بڑاملک ہوتا،صوبے چھوٹے ہوجائیں تو سب ترقی کرینگے ،ہرپارٹی نئے صوبوں کی حامی ہم سیاستدانوں سے نہیں پڑھے لکھے بچوں سے مدد مانگ رہے :سیمینارسے خطاب،گورننس ماڈل بہتر ہونا چاہئے :عبدالرحمن

ایبٹ آباد(دنیا نیوز)چیئرمین دنیا میڈیا گروپ میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت اسلام آباد میں بیٹھ کر 25 کروڑ لوگوں کیلئے کچھ کرنا چاہے تو ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا، چھوٹے صوبے بنانے سے مسائل حل کرنے میں آسانی ہو گی۔ایبٹ آباد انٹرنیشنل میڈیکل کالج میں ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز آف پاکستان کے زیراہتمام ’’2030 کا پاکستان، چیلنجز، امکانات اور نئی راہیں‘‘ کے عنوان سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ دنیا کے دیگر بڑے ممالک میں فیڈرل گورنمنٹ قائم ہوتی ہے ، فیڈریشن کو مختلف ایڈمنسٹریٹویونٹس میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ تمام بڑے ممالک نے عوام کی خدمت کیلئے اپنے ایڈمنسٹریٹو یونٹس کو وقت کے ساتھ چھوٹا کیا، پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اوراس میں صوبوں کی تعداد 4 ہے ، ہم نے وقت گزرنے کے ساتھ اپنے صوبوں کو چھوٹا نہیں کیا۔پاکستان کے 4صوبوں کو دیکھا جائے تو کوئی ترتیب نظر نہیں آئے گی، 2001 میں جو لوکل گورنمنٹ آرڈیننس بنا وہ لوکل گورنمنٹ کی تاریخ میں اچھا نظام قراردیا گیا۔ میئر ڈسٹرکٹ کا ایگزیکٹو ہیڈ تھا، وہ سسٹم صرف 8سال پاکستان میں چل سکا، سیاسی گورنمنٹس اورصوبائی اسمبلی وجود میں آئیں تو لوکل گورنمنٹ نظام کو ختم کردیا گیا، حکومت کے تین ستون ہیں،وفاق،صوبے اورلوکل گورنمنٹ، جس نے عوام کی حقیقی خدمت کی ہے وہ لوکل گورنمنٹ ہے ۔

میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے لوکل گورنمنٹ کو پاکستان میں کبھی مستحکم نہیں رہنے دیا گیا، پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا 52فیصد ہے ، دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ ایک فیڈریٹنگ یونٹ باقی تمام سے بڑا ہو، دنیا میں 172ممالک ایسے ہیں جو رقبے میں بلوچستان سے چھوٹے ہیں، بلوچستان رقبے میں سب سے بڑا اورآبادی میں سب سے چھوٹا صوبہ ہے ، آپ کوئٹہ میں بیٹھ کر اتنے بڑے رقبے پر گورنمنٹ کی رٹ قائم نہیں کرسکتے ۔ چین کی آبادی آج 150کروڑ ہے اس کے 31صوبے ہیں، امریکا نے خود کو 17صوبوں سے شروع کیا آج 50 ہیں، انڈونیشیا کی آبادی 27کروڑ ہے اور اس کے 34صوبے ہیں، پاکستان کی آبادی 25کروڑ ہونے والی ہے اور 4 صوبے ہیں، نائیجیریا آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک ہے ،اس کے 27صوبے ہیں، برازیل 20کروڑ آبادی کا ملک اوراس کے 36صوبے ہیں، میکسیکو کی آبادی 13کروڑ اورصوبے 31ہیں۔ میاں عامر محمود نے کہاکہ وجود میں آنے کے بعد کسی بھی گورنمنٹ کی 7ذمہ داریاں ہوتی ہیں، عوام کی اکنامک ویلفیئر ریاست کی ذمہ داری ہے ، حکومت خود ایسی پالیسی لاتی ہے جس سے عوام معاشی طور پر ترقی کرسکیں، سرحدوں کی حفاظت بھی فیڈرل گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے ۔

ورلڈبینک کے ایک گروپ نے پاکستان کے بارے میں سٹڈی کی، ورلڈبینک نے ایک رپورٹ شائع کی کہ پاکستان 100سال کا ہونے پر کیسا ہوگا، ہم نے اپنے علاقوں کو ایک جیسی ترقی نہیں دی، ہم نے 79سالوں میں صرف 5کیپیٹل سٹیز کوترقی دی ہے ، پنجاب اگر ایک ملک ہوتو دنیا کا 13واں بڑا ملک ہوگا۔ خیبرپختونخوا چلے جائیں تو ساری ترقی پشاور میں نظر آئے گی، پشاور کی بھی حالت اتنی اچھی نہیں، لاہور سے باہر نکلیں گے تو پنجاب میں ویسی ترقی نظر نہیں آئے گی، پنجاب گورنمنٹ نے اب لاہور سے باہر بھی ترقی کا کچھ کام شروع کیا ہے ، کراچی سے باہر نکلیں تو پورا سندھ کچی آبادی کا منظر پیش کرے گا۔ جب ایک شہر کو ترقی دیتے ہیں تو وہ بھی زیادہ نقل مکانی ہونے کی وجہ سے ترقی نہیں کرتا ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلی مردم شماری 1951میں ہوئی اس وقت آبادی 3کروڑ30لاکھ تھی، آج پاکستان کی آبادی 25کروڑ کے قریب ہے ، پنجاب آج 13کروڑ آبادی کا صوبہ بن چکا ہے ، سندھ 6ملین سے شروع ہوا، آج صرف کراچی کی آبادی 3کروڑ سے زیادہ ہے ۔

ا ن کاکہناتھا کہ صرف 31ملک ہیں جن کی آبادی سندھ سے زیادہ ہے ، دنیا میں 41ممالک ایسے جن کی آبادی خیبرپختونخوا سے زیادہ ہے ، بلوچستان کو دیکھیں تو 172ممالک ایسے ہیں جو رقبے میں بلوچستان سے چھوٹے ہیں ۔ہماری تجویز ہے کہ سندھ کے 7ڈویژن ہیں اس کو 7حصوں میں تقسیم کیا جائے ، کراچی اورحیدرآباد کیلئے تحریک بہت دیر سے چل رہی ہے ، خیبرپختونخوا کے بھی 7ڈویژن ہیں، ہزارہ، ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی الگ صوبے کی تحریک چل رہی ہے ۔چیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے کہا کہ یواین نے ایک سروے کیا، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گول میں 193ممالک کا سروے کیا گیا اور ہمارا نمبر 140واں ہے ، ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں 193ممالک کا سروے کیا گیا ہم 168نمبر پر ہیں، قانون کی بالادستی کے حوالے سے سروے میں ہم142 ممالک میں 129نمبر پر ہیں، گلوبل ہنگر انڈیکس میں 127ممالک کا سروے ہوا،ہمارانمبر109واں ہے ۔ ہمارے 44فیصد بچوں کو متوازن غذا نہیں ملتی، ان44فیصد بچوں کی ذہنی اورجسمانی نشوونما ٹھیک نہیں ہوگی، یہ 44فیصد بچے 20سال بعد کوئی کام نہیں کرسکیں گے ، ہم نے اپنے 20سال بعد کا مستقبل بھی برباد کرلیا۔انہوں نے واضح کیا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو کوئی کام نہیں کرسکیں گے ، اتنی بڑی تعداد تک پہنچنے کیلئے نیٹ ورک ہماری حکومت نے بنانا ہے ، حکومت کے اوپر پہلے ہی کاموں کا اتنا بوجھ ہے کہ ان بنیادی چیزوں کا اس کو ہوش ہی نہیں۔

میاں عامر محمود نے کہا کہ ہم اس وقت صرف طلبہ،اساتذہ اورملک کے نوجوانوں سے بات کررہے ہیں، ہم نے بات کردی آپ انفرادی طور پر اس کو آگے لوگوں تک پہنچائیں، ترقی کا گراف آپ کو نیچے ہی جاتا ہوا نظر آئے گا، ان 80سالوں میں تمام حکمران خراب نہیں آئے کچھ اچھے بھی ہوں گے ، کسی دور میں بھی ہماری حالت بہتری کی طرف کبھی نہیں گئی۔ آج ایسے علاقے میں آئے ہیں جہاں صوبے کی تحریک بہت دیر سے چل رہی ہے ، اس علاقے کے لوگوں نے اپنا ایک آزاد صوبہ بنانے کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں، ہم آج آپ کی تحریک میں شامل ہونے آئے ہیں، ہم کہہ رہے ہیں پاکستان کے ہر ڈویژن کو صوبہ بنائیں، صوبے چھوٹے ہوجائیں تو سب کے سب ترقی کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سیاستدانوں سے نہیں بلکہ پڑھے لکھے بچوں سے مدد مانگ رہے ہیں، سیاسی پارٹیاں عوامی مطالبے پر چلتی ہیں، آپ جو مطالبہ کریں گے اس کو سیاسی جماعت نے آگے لیکر چلنا ہی ہے کیونکہ اس کو آپ کا ووٹ چاہئے ، پاکستان میں 64فیصد نوجوان ہیں، پڑھے لکھے 1فیصد بچوں نے باقی 63فیصد نوجوانوں کے پاس پہنچنا ہے ۔چیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے کہا کہ نئے صوبوں کا مطالبہ نوجوانوں کی طرف سے آئے تو کوئی سیاسی جماعت اگنور نہیں کرسکتی، ہر پارٹی نے الیکشن سے پہلے اپنے منشور میں نئے صوبوں کی سپورٹ کی، شہید بینظیر بھٹو نے اپنے پہلے الیکشن میں صوبے کی پاورڈسٹرکٹ تک منتقل کرنے کی بات کی ہوئی ہے ۔

ن لیگ کا منشور دیکھ لیں تو چھوٹے صوبوں کی بات بار بار کی ہوئی ہے ، بانی پی ٹی آئی نے بار بار کہا مساوی ترقی کیلئے صوبے کو ڈویژن لیول پر لے کر جائیں، ایک بھی ایسی پارٹی نہیں جس نے صوبوں کی بات نہ کی ہو۔انہوں نے کہا کہ حکومت میں آنے کے بعد وہ صوبوں کی بات اس لئے نہیں کرتے کہ ہماری طرف سے کوئی مضبوط متفقہ مطالبہ نہیں ہوتا، ہمارے پاس لیڈرشپ ڈویلپمنٹ کا کوئی طریقہ کار نہیں، موجودہ سسٹم میں عام مڈل کلاس آدمی سیاست میں آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔ میاں عامر محمود نے کہا کہ دنیا میں سیاسی لیڈرشپ مڈل کلاس سے آتی ہے ، مڈل کلاس آگے آئے گی تو محنت کرے گی، ہمارے ملک میں لیڈرشپ خاص راستے سے آتی ہے ، یہ عوام میں منواکر کام کرکے نہیں آتی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 33صوبے ہوں گے تو آرگینک لیڈرشپ گرو کرنے کا موقع ملے گا، کل نیویارک میں مسلمان لڑکا میئر بن گیا، نیویارک کے نومنتخب میئر میں قابلیت تھی ،اس نے شہر کے امیرترین طبقے کے خلاف مہم چلائی اوروہ جیت گیا، وہاں ایسا سسٹم ہے جس نے اس کو موقع دیا، ہمیں ایسا سسٹم چا ہئے جو گرو کرنے دے اورآرگینک لیڈرشپ کو آگے بڑھنے دے ۔میاں عامر محمود نے کہا کہ اس وقت ہماری روٹی اورتعلیم سے بڑی ضرورت لیڈرشپ ہے جو ہمیں آگے لے کر چلے ، اگر ہم صوبے چھوٹے کردیں تو لیڈرشپ جیسا بڑا مسئلہ حل ہوجائے ۔

انہوں نے کہا کہ مواقع ہمیشہ چیلنجز میں ہی پیدا ہوتے ہیں، کبھی یہ نہ سوچیں کوئی آپ کو مواقع پلیٹ میں رکھ کردے گا، جس میں ہمت ہے وہ آگے ضرور آئے گا، ہم ایسا ماحول بنانے کی کوشش کررہے ہیں جو آپ کی مدد کرے لیکن آگے آپ نے خود بڑھنا ہے ۔ ہمیں چیلنجز کو مواقع میں بدلنا ہے دنیا کے کئی ممالک نے ترقی کیلئے ایسا کیا ہے ، ہم چاہتے ہیں مڈل کلاس سے لیڈرشپ نکل کرسامنے آئے ، اچھی بات ہے خیبرپختونخوا میں مڈل کلاس سے لیڈر شپ آئی، لیکن ہمارا نظریہ کچھ مختلف ہے چاہتے ہیں کوئی اپنی مہربانی سے کسی کو منتخب نہ کرے ۔چیئرمین دنیا میڈیا گروپ نے کہا کہ صوبے آگے بڑھیں گے تو ملک آگے بڑھے گا۔قبل ازیں چیئرمین ایپ سپ چودھری عبدالرحمن نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میاں عامر محمو د کو ایک سچے پاکستانی اورعظیم لیڈر کے طور پر جانتا ہوں، یہ ہر سال ساڑھے 6 لاکھ طلبہ کو تعلیم کی روشنی سے منور کررہے ہیں۔ ہمارے یہاں آنے کا مقصد اپنے کل کو بہتر کرنا ہے ، جب تک انفرادی طور پر تبدیل نہیں ہوں گے تب تک معاشرہ تبدیل نہیں ہو گا، ہمیں ڈاکٹر،انجینئربننے سے پہلے ایک اچھا انسان بننا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ میاں عامر محمود نے ایک کامیاب ناظم بن کر خدمت کی، ہمیں اپنا گورننس ماڈل بہتر کرنا پڑے گا، آج پورا پاکستان کہہ رہا ہے کہ گورننس ماڈل بہتر ہونا چاہئے ، اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل ہونا چاہئے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں