اسلام آباد خود کش دھماکا خطرے کی گھنٹی ،مذاکرات کی بات ٹھنڈی پڑ گئی

اسلام آباد خود کش دھماکا خطرے کی گھنٹی ،مذاکرات کی بات ٹھنڈی پڑ گئی

پاکستان سے کشیدگی اور جنگ کی صورتحال میں افغانستان میں بے چینی بڑھنے کا خدشہ

(تجزیہ:سلمان غنی)

دہشت گردی کے حوالہ سے حکومتی ذمہ داران کی جانب سے ظاہر کئے جانے والے خطرات و خدشات کا اظہار ہو رہا تھ،ا وہ سلسلہ شروع ہے اور وہ دشمن جو پہلے سکیورٹی فورسز پرحملے کر رہا تھا اب اس نے پاکستان کے ‘‘نروز سنٹر’’ اسلام آباد کو ٹارگٹ کیا ۔ کچہری کے مین گیٹ پر ہونے والے خودکش حملہ کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہم دہشت گردی کے حوالہ سے اپنے کردار سے پسپائی اختیار کرنے والے نہیں اور پاکستان کا داخلی استحکام اور نظام ہمارا ٹارگٹ ہے ۔لہٰذا اب نئی پیدا شدہ صورتحال میں اسلام آباد کو ٹارگٹ کرنے کا عمل کیا ظاہر کرتا ہے ،دہشت گردی کرنے اور کرانے والے کون ہیں اور یہ  مکروہ اور مذموم عمل کب تک جاری رہے گا اور اس کا سدباب کس طرح ممکن ہوگا ۔ایک بات تو واضح طور پر سامنے آ رہی ہے کہ دہشت گردی کے اس عمل کے ڈانڈے افغانستان سے ملتے ہیں۔

اسلام آباد کو ٹارگٹ کرنے کا عمل اس کا بڑا ثبوت ہے اور اس میں افغان سرزمین کا استعمال ڈھکا چھپا نہیں۔اسلام آباد جی الیون کچہری کے باہر دہشت گردی کا یہ عمل بھارتی سپانسرز اور افغان طالبان کی پراکسی فتنہ الخوارج کا شاخسانہ ہے ۔ خود اقوام متحدہ اور دیگر کئی ممالک کالعدم ٹی ٹی پی کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں، اس کے باوجود ترکیہ، قطر اور ایران جیسے ممالک مسئلہ کا کوئی پرامن حل نکالنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور پاکستان نے سب دوستوں پر واضح کر رکھا ہے کہ ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال رکنا چاہئے اور یہی وہ نکتہ ہے جسے طالبان تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور پاکستان یہ واضح کر چکا ہے کہ وہ سرحد پار سے دہشت گردی کا ممکنہ جواب دے گا ۔یہی وجہ ہے کہ وزیر دفاع نے کہا ہے کہ ہمارے لئے ویک اپ کال ہے اور یہ ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ اب مذاکرات کی بات ٹھنڈی پڑتی نظر آ رہی ہے اور یہ رائے بڑھتی دکھائی دے رہی ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے ماننے والے نہیں اور افغان سرزمین سے اس مذموم عمل پر اب افغان طالبان کو جوابدہ بنانا پڑے گا اور اگر وہ اس حوالہ سے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پرقائم رہتے ہیں تو پھر دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور تربیتی مراکز کے خلاف آپریشن کے سوا کوئی آپشن نہیں ۔اگر افغان سرزمین سے کارروائیوں اور حملوں کا عمل بند نہیں ہوتا تو مرض کی تشخیص کے بعد آپریشن ناگزیر ہے ۔ افغان طالبان یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ وہ جن کے اکسانے پر پاک سرزمین کو ٹارگٹ کر رہے ہیں وہ دشمن خود شکست خوردہ ہے اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں وہ ان کی مدد کو نہیں پہنچ پائے گا ۔

پاکستان کی حکومت اور ریاست تو اب پرعزم دکھائی دے رہی ہے کہ نہ دہشت گردی برداشت ہوگی اور نہ دہشت گرد بچ پائیں گے ۔البتہ ابھی ترکیہ کی کوششوں کاوشوں کو دیکھنا پڑے گا کہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے پاکستان وفد بھجوانے سے قبل افغان انتظامیہ سے بات کی ہو اور ان کی طرف سے اپنی ضد اور موقف سے پیچھے ہٹنے کا کوئی اشارہ ہو، کیونکہ پاکستان سے کشیدگی اور جنگ کی صورتحال میں افغانستان میں بے چینی بڑھنے کا خدشہ ہے اور یہ صورتحال خود افغان انتظامیہ کے مستقبل کے لئے خطرناک ہوگی ،اس لئے کہ ابھی تک ان کی حیثیت عبوری حکومت کی ہے ،انہیں خود اپنے عوام کی تائید حاصل نہیں لیکن وہ جس طاقت کی شہ پر پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں اب شاید وہ بھی ان کی عملاً مدد کی پوزیشن میں نہیں، لہٰذا افغان انتظامیہ نوشتہ دیوار پڑھے اور ٹی ٹی پی اور دہشت گرد تنظیموں سے ناطہ توڑے ورنہ ان کو ان سے علیحدہ تصور نہیں کیا جا سکے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں