افغانستان کا پاکستان پر تجارتی انحصار ختم ہو سکتا ہے

افغانستان کا پاکستان پر تجارتی انحصار ختم ہو سکتا ہے

افغان تاجر کبھی پاکستان سے تجارت کے خاتمے کا فیصلہ قبول نہیں کریں گے

(تجزیہ: سلمان غنی)

افغانستان کی جانب سے پاکستان پر اپنا تجارتی انحصار ختم کرنے کا اعلان ، اس بات کا مظہر ہے کہ افغان انتظامیہ، پاکستان کی جانب سے دہشت گردی سے متعلق شکایات کے ازالے کے بجائے متبادل آپشنز کی تلاش میں سرگرم ہے ۔ اگرچہ افغانستان کا پاکستان پر تجارتی انحصار ختم ہو سکتا ہے مگر افغان تاجر کبھی بھی پاکستان سے تجارت کے خاتمے کے فیصلے کو قبول نہیں کریں گے ۔یہ اعلان اس امر کا متقاضی ہے کہ دیکھا جائے افغان حکومت اور تاجروں کے پاس کون سے متبادل راستے موجود ہیں، کیا وہ قابلِ عمل ہوں گے ، کیا ان کے ذریعے افغان عوام کو سستی اشیا دستیاب ہو سکیں گی۔ پاکستان اس خطے میں قدرتی تجارتی رسائی رکھتا ہے اور افغانستان تاریخی طور پر پاکستانی بندرگاہوں کے ذریعے عالمی تجارت پر انحصار کرتا آیا ہے ۔اب اطلاعات کے مطابقپاکستان کے ساتھ کشیدگی کے بعد افغانستان ایران کے راستے چاہ بہار بندرگاہ کو ترجیح دے سکتا ہے ، جب کہ ازبکستان، ترکمانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کی کوشش بھی کر رہا ہے ۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممالک افغانستان سے تجارت کے لیے تیار ہوں گے ؟ماہرین کے مطابق، افغانستان کے اس فیصلے کے اثرات دونوں ممالک کی معیشت پر پڑیں گے ۔ افغان حکومت کا یہ ردعمل بظاہر پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف بعض اقدامات کے نتیجے میں سامنے آیا ہے ۔ تاہم متبادل تجارتی راستوں کی تلاش نے افغانستان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔اب افغان انتظامیہ پاکستان کی شکایات کے ازالے کے بجائے الٹا دباؤ ڈالنے کے لیے نئے آپشنز پر غور کر رہی ہے ۔

بہرحال دونوں ممالک مستقبل میں کسی نہ کسی نوعیت کے تعلقات برقرار رکھنے پر مجبور ہوں گے ، خواہ وہ محدود ہی کیوں نہ ہوں۔الزام تراشی، باہمی عدم اعتماد، داخلی سیاسی دباؤ اور علاقائی مداخلت نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو اس نہج پر پہنچایا ہے ۔ تاہم ترکیہ اب بھی پاک افغان کشیدگی کم کرنے اور تعلقات کی بحالی کے لیے سرگرم دکھائی دیتا ہے ۔ اطلاعات ہیں کہ ترکیہ کا ایک اعلیٰ سطحی وفد اس ہفتے اسلام آباد کا دورہ کرے گا، اور ممکنہ طور پر افغان طالبان سے بھی رابطے کیے جا چکے ہیں۔افغانستان میں منشیات کی بڑی کھیپ بھارت کے راستے دنیا بھر میں پہنچ رہی ہے ۔ ماضی کے برعکس، آج کا افغانستان ایک بار پھر افیون کا گڑھ بن چکا ہے ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2025ء میں افغانستان میں10 ہزار 200 ایکڑ پر افیون کاشت کی گئی اور اس میں اضافہ جاری ہے ۔ آئس کی پیداوار میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس سے ملک میں جرائم اور سمگلنگ میں آسانی پیدا ہوئی ہے ۔ایسی صورتِ حال میں دیگر ممالک افغانستان سے تعلقات کے حوالے سے محتاط ہیں۔چین کو بھی افغان پالیسی پر تشویش لاحق ہو سکتی ہے ، کیونکہ وہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں کو سراہتا آیا ہے ۔ اگر افغان طالبان پاکستان کو نظرانداز کر کے دیگر ممالک سے تجارتی تعلقات قائم کرنے کی پالیسی اپناتے ہیں تو چین کو بھی اپنی پوزیشن پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔لہٰذا ملا عبدالغنی برادر کا حالیہ بیان بظاہر پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی ایک کوشش قرار دیا جا سکتا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں