افغانستان میں معاشی بد حالی ،10میں سے 9گھرانے بھوک اور قرض کا شکار

افغانستان  میں  معاشی  بد حالی ،10میں  سے 9گھرانے  بھوک  اور  قرض  کا  شکار

ایران اور پاکستان سے 45لاکھ افغان شہری واپس لوٹے ، 10فیصدآبادی بڑھی ،90فیصد خاندان قرض میں ڈوب گئے واپس آنیوالے 95 فیصد افغان بیروزگار،خوراک خریدنے کیلئے علاج ترک ،امدادنہ ملی تو بحران بڑھے گا:یو این ڈ ی پی

کراچی (رائٹرز)اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان کی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے اور ہر دس میں سے نو گھرانے بھوک، غربت اور قرض کے باعث زندہ رہنے کیلئے انتہائی اقدامات پر مجبور ہیں۔اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق 2023سے اب تک ایران اور پاکستان سے 45لاکھ سے زائد افغان شہری واپس لوٹ چکے ہیں، جس کے نتیجے میں ملک کی آبادی میں تقریباً 10 فیصد اضافہ ہوا ۔ زلزلوں، سیلابوں اور خشک سالی نے آٹھ ہزار سے زائد مکانات تباہ کر دئیے ہیں جبکہ عوامی خدمات خاص طور پر تعلیم اور صحت اپنی حد سے زیادہ دباؤ میں ہیں۔

سروے کے مطابق آدھے سے زیادہ واپس آنے والے افغانوں نے خوراک خریدنے کیلئے علاج ترک کر دیا ہے جبکہ 45 فیصد لوگ غیرمحفوظ چشموں یا کنوؤں سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔تقریباً 90 فیصد خاندان قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں، جن پر اوسطاً 373 سے 900 امریکی ڈالر تک کا بوجھ ہے جو کہ ان کی ماہانہ آمدنی سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ واپس آنے والے افغانوں میں بے روزگاری 95 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ کمرے کے کرائے تین گنا بڑھ گئے ہیں۔ کچھ علاقوں میں ایک استاد 70 سے 100 طلبہ کو پڑھانے پر مجبور ہے اور 30 فیصد بچے مزدوری کر رہے ہیں۔افغانستان میں خواتین کی افرادی قوت میں شمولیت صرف 6 فیصد رہ گئی ہے جو دنیا میں سب سے کم شرح میں سے ایک ہے ۔ یو این ڈی پی نے متنبہ کیا ہے کہ اگر فوری امداد نہ ملی تو غربت، بدحالی اور نقل مکانی کے بحران میں مزید اضافہ ہوگا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں