پی ٹی آئی کا اسٹیبلشمنٹ کی بجائے ن لیگ کو ٹارگٹ کرنیکا فیصلہ

 پی ٹی آئی کا اسٹیبلشمنٹ کی بجائے ن لیگ کو ٹارگٹ کرنیکا فیصلہ

دیکھنا ہوگا آنے والے چند روز میں اس حوالہ سے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے

(تجزیہ: سلمان غنی)

پی ٹی آئی نے نئے پیدا شدہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ کو ٹارگٹ کرنے کی بجائے ن لیگ کو ٹارگٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالہ سے طے شدہ حکمتِ عملی بارے پتا چلا ہے کہ جیل سے باہر قیادت سمجھتی ہے کہ فیصلہ سازوں کو ایسا موقع نہ دیا جائے کہ پختونخوا میں گورنر راج یا پی ٹی آئی کو بین کا سامنا کرنا پڑے ۔ لہٰذا اب ن لیگ کے وزرا اور فیصل واوڈا سمیت اُنہیں ٹارگٹ کیا جائے گا جو میڈیا پر اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کی ترجمانی کرتے نظر آئیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ پشاور جلسہ میں حکمتِ عملی پر ہی عمل درآمد ہوا اور پی ٹی آئی کے ایک لیڈر شاہد خٹک نے خواجہ آصف اور عطا تارڑ کو ٹارگٹ کیا اور نازیبا الفاظ میں مخاطب کیا۔

خود وزیرِاعلیٰ آفریدی نے بھی زیادہ جوش و جذبہ دکھانے کی بجائے پی ٹی آئی کے بانی کے حوالے سے نعروں پر ہی اکتفا کیا اور گول مول انداز میں اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی۔لہٰذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی نئی حکمتِ عملی کامیاب رہے گی، ن لیگ کو ٹارگٹ کرنے سے اُن کے اصل مقاصد پورے ہو پائیں گے اور کیا ان کے خلاف آنے والا دباؤ ختم ہو پائے گا۔ آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد پی ٹی آئی میں پھر سے ایک واضح تقسیم دیکھنے میں آئی۔ مفاہمت پسندوں کا کہنا تھا کہ سیاسی محاذ پر ریاست کو ٹارگٹ کرنے کی بجائے حکومت کو ٹارگٹ کریں اور ایسا طرزِ عمل اختیار نہ کریں جس سے جماعت کے خلاف طاقت کے استعمال کا موقع ملے ۔ فی الحال تو اسی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ ہوا ہے ، جبکہ پختونخوا کی قیادت صبر و تحمل کی بجائے کسی بڑے ردِعمل کی خواہاں ہے اور تیاریوں پر زور دے رہی ہے ۔

لہٰذا دیکھنا ہوگا کہ آنے والے چند روز میں اس حوالہ سے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ، البتہ پارٹی لیڈرشپ دفاعی پوزیشن اختیار کرتی دکھائی دے رہی ہے اور اس حوالہ سے بیرسٹر گوہر اور سلمان اکرم راجہ سرگرمِ عمل ہیں۔ جہاں تک ن لیگ کو ٹارگٹ کرنے کے عمل کا سوال ہے تو پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ ن لیگ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی ترجمان ہے اور اس کو سیاسی محاذ پر زچ کیا جائے اور اس کے خلاف بیانیہ بنا کر چلایا جائے تاکہ اپنا سیاسی کیس عوام میں رہے ۔ پیپلز پارٹی کی خاموشی پر پی ٹی آئی نے بھی اس کے خلاف نرمی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور طے کیا ہے کہ صرف ایک بڑا سیاسی محاذ کھولا جائے اور اس ضمن میں ن لیگ ہی ٹارگٹ ہو گی۔سیاسی حلقوں میں پی ٹی آئی کے پشاور جلسہ کو تو کامیاب قرار دیا جا رہا ہے مگر اس میں کوئی واضح لائن اختیار نہیں کی گئی، نہ ہی کسی ردِعمل کا اعلان کیا گیا، البتہ پختونخوا میں جلسوں کا پروگرام بنایا گیا ہے اور نظر آ رہا ہے کہ نئے حالات میں سرگرمیوں کا مرکز پختونخوا ہی رہے گا۔ البتہ کل (منگل کے روز) اڈیالہ جیل کے باہر کی کال کے حوالہ سے پارٹی کنفیوژ ہے کہ یہاں جمع ہوا جائے یا محض علامتی احتجاج کیا جائے ۔ اب یہ پی ٹی آئی کے لیے ٹیسٹ کیس ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں