پاکستان کی 80 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم، آئندہ 10 برسوں میں 42 ارب ڈالرز درکار : ایشیائی ترقیاتی بینک
ملک کوپانی کے شدید بحران کا سامنا ،آبادی بڑھنے کے باعث 1972سے 2020تک فی کس کیلئے پانی کی مقدار 35سو سے کم ہو کر 11سو کیوبک میٹر رہ گئی ملک کے دریاؤں کا نظام خطرے سے دوچار، زراعت کیلئے زیادہ پانی استعمال ہونے کے باعث سطح میں کمی اور آلودگی بڑھ رہی ، اتھارٹی کاقیام ناگزیر، آؤٹ لُک رپورٹ
اسلام آباد(مدثر علی رانا) ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے ایشین واٹر ڈویلپمنٹ آؤٹ لُک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان کوپانی کے شدید بحران کا سامنا ہے ، ذخائر میں تیزی سے کمی جاری ہے ،پاکستان میں 80 فیصد آبادی کو پینے کیلئے صاف پانی دستیاب نہیں، 80 فیصد آبادی کا حصہ گزشتہ مردم شماری کے مطابق تقریباً 20 کروڑ بنتا ہے ۔ واٹر ڈویلپمنٹ آؤٹ لُک میں کہا گیا کہ پانی کے نظام میں گورننس کیلئے پاکستان کو آئندہ دس برسوں میں تقریباً42 ارب ڈالرتک کی ضرورت ہو گی۔ آبادی بڑھنے کے باعث پاکستان میں فی کس کیلئے پانی کی مقدار میں 2400 کیوبک میٹر کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ 1972 سے لے کر 2020 تک فی کس پانی کی مقدار 3500 کیوبک میٹر سے کم ہو کر 1100 کیوبک میٹر رہ گئی۔
پینے کیلئے صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث بیماریوں کا پھیلاؤ تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ زراعت کیلئے زیادہ مقدار میں پانی استعمال ہونے کے باعث سطح میں کمی اور آلودگی بڑھ رہی ہے ۔ اے ڈی بی رپورٹ میں کہا گیا کہ پانی کے مخالف بہاؤ اور انفراسٹرکچر کے چیلنجز کے باعث پاکستان کے دریاؤں کا نظام خطرے سے دوچار ہے ۔ دیہی علاقوں میں تاحال پانی کی سپلائی غیر مؤثر اور نگرانی کا عمل بھی متاثر کن نہیں ہے ۔ پانی کی دستیابی اور صاف پانی کی فراہمی کیلئے پالیسیاں ڈیمانڈ کے مطابق نہیں ۔ پاکستان میں زراعت، صنعت اور انرجی سمیت تمام شعبوں کو پانی کے مسائل کا سامنا ہے ۔ پاکستان کو پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہونے اور نہری نظام بہتر نہ ہونے جیسے مسائل درپیش ہیں۔ شہری علاقوں میں پانی کی سالانہ طلب میں تقریباً 10 فیصد اضافہ ہو رہا ہے ۔اے ڈی بی واٹر ڈویلپمنٹ آؤٹ لُک کے مطابق شہری علاقوں میں بغیر ٹریٹمنٹ شدہ پانی اور اربن فلڈنگ صحت اور خدمات کو متاثر کر رہے ہیں۔ شہری علاقوں میں پانی کا پرانا نظام ہے جبکہ نجی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ آبادی میں اضافہ، شہروں کا پھیلاؤ اور بغیر ٹریٹمنٹ شدہ پانی کے باعث پانی کا ماحولیاتی نظام خطرے سے دوچار ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے واٹر گورننس فریم ورک کی تیاری میں پیش رفت ظاہر کی ہے لیکن پانی کا بہتر نظام بنانے کیلئے فنڈنگ ناکافی قرار دی گئی ۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں پانی کا ضیاع زیادہ ہے ، ٹیرف اور ریکوری کم جبکہ بلنگ کا نظام ناقص ہے ۔ پانی کا ذخیرہ بڑھانے کیلئے بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں کی ضرورت ہے جبکہ اداروں کے درمیان شراکت داری، تکنیکی کپیسٹی اور مالیاتی پلاننگ نہ ہوئی تو مزید واٹر سکیورٹی کو خطرہ بڑھے گا۔موجودہ ڈالر ریٹ کے حساب سے تقریباً 12 ہزار ارب روپے پانی کے نظام پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان میں پانی کا انفراسٹرکچر بنانے کیلئے موجودہ فنڈ ناکافی قرار دیا گیا ہے ۔ گزشتہ 13 برسوں کے دوران پاکستان میں واٹر سکیورٹی سکور میں بہتری بھی ریکارڈ کی گئی ۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے ایشین واٹر ڈویلپمنٹ آؤٹ لُک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانی کے نظام میں بہتری کیلئے مضبوط پالیسی ہی مضبوط بنیادیں کھڑی کر سکتی ہے لیکن فریم ورک پر سختی سے عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے ۔ اداروں کے درمیان مضبوط شراکت داری، مستحکم فنانسنگ اور گورننس، قدرتی آفات سے بچنے کیلئے مؤثر تیاریاں اور آزاد نگرانی کی ضرورت ہے ۔ رپورٹ کے مطابق پانی کا نظام بہتر بنانے اور سروسز کی بہتری کیلئے سنگل اتھارٹی موجود نہیں جو پورے ملک میں سٹینڈرڈز پر عملدرآمد کرا سکے ۔ رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ وفاقی سطح پر خودمختار اتھارٹی قائم کرنے کی ضرورت ہے جو پانی کی کوالٹی، سروسز کی فراہمی اور شفافیت کو بڑھا سکے ۔ اس اتھارٹی کی ذمہ داریوں میں شامل ہو کہ پینے کیلئے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائے اور سرمایہ کاری کو راغب کرے ۔