جعلی مینڈیٹ والی حکومت آئین میں ترامیم کا حق نہیں رکھتی : فضل الرحمٰن
تیز ی سے ترامیم اسلام کے منافی ، آئین مجروح،22دسمبر کو اے پی سی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کرینگے جمہوری ملک میں سیاستدانوں کی گرفتاری اور ملاقاتوں پر پابندی کے حق میں نہیں: چکوال میں میڈیاسے گفتگو
چکوال، اسلام آباد (این این آئی، مانیٹرنگ ڈیسک ) سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمن نے کہا کہجعلی مینڈیٹ والی حکومت آئین میں ترامیم کا حق نہیں رکھتی ، 26ویں اور27 ویں ترامیم اسلام کے منافی ،دینی و مذہبی جماعتوں کی اے پی سی میں مستقبل کا لائحہ عمل طے کیاجائے گا۔ ان کے پاس اصل مینڈیٹ ہی نہیں، یہ جعلی مینڈیٹ کے ساتھ حکومت کر رہے ہیں جعلی مینڈیٹ کے باوجود بھی حکومت صرف مسلم لیگ (ن) کی ہے ، جبکہ پیپلز پارٹی محض سہارا بنی ہوئی ہے ، جب آئین کے خلاف قانون سازی کی جائے گی تو اس کا مطلب آئین سے بغاوت ہوگا۔
چکوال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان ترامیم کے ذریعے اسلامی جمہوریہ پاکستان جو آئین پاکستان کی بنیادی دستاویز ہے کی نفی کی گئی ،اس حوالے سے 22دسمبرکو کراچی میں تمام دینی اور مذہبی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی ہے جس میں مستقبل کا لائحہ عمل طے کیاجائے گا ،اتنی تیزی کے ساتھ آئین میں ترامیم کا جو رجحان ہے ، وہ آئین کی اہمیت کو مجروح کر رہا، بانی پی ٹی آئی سے ملاقاتیں نہ ہونے دینا بھی ایک جمہوری ملک میں افسوسناک ہے ،میں تو یہ بھی سوال اٹھاتا ہوں کہ وہ گرفتار کیوں ہیں؟ نہ میں سیاستدانوں کی گرفتاری کے حق میں ہوں اور نہ ملاقاتوں پر پابندی کے حق میں ہوں، ہم نے تو آئین کا حلف اٹھایا ہے اور اس آئین میں قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کا حلف شامل ہے۔
سربراہ جے یو آئی کاکہناتھا کہ سپریم کورٹ نے آج ایک فیصلہ دیا ہے ، جو زنا بالجبر کے کیس سے متعلق تھا۔ 20سال کی سزا کو کم کر کے پانچ سال کر دیا گیا اور اسے زنا بالجبر کے بجائے زنا بالرضا قرار دیا گیا۔ یہ فرق مشرف دور میں متعارف کروایا گیا تھا، جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے منافی ہے ، سربراہ جے یو آئی کاکہناتھا کہ جہاں تک 28ترمیم اور نئے صوبوں کی بازگشت کا تعلق ہے تو اصولی بات اور ہے اور عملی حقیقت کچھ اور آپ نے فاٹا کو صوبے میں ضم کیا، ہم نے دلائل کے ساتھ مخالفت کی اور اس کے نقصانات سے آگاہ بھی کیا، لیکن کچھ لوگ خود کو عقلِ کل سمجھتی ر ہے ۔ آج وہی لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ فیصلہ غلط تھا اور اب باقی صوبوں کو بھی تقسیم کرنے کی بات ہو رہی ہے ان کا کہناتھا کہ تدبیر اور تدبر کا تقاضا ہے کہ معاملات کے انجام پر نظر رکھی جائے ، یہ لوگ بات تو کر لیتے ہیں، پھر طاقت کے زور پر فیصلے نافذ بھی کر دیتے ہیں ،میں دعوے سے کہتا ہوں کہ 75، 78سالوں میں نہ پاکستان کی افغان پالیسی درست رہی اور نہ ہی دہشت گردی کے خلاف پالیسی کوئی مثبت نتیجہ دے سکی ہے فیصلے سیاستدانوں نے کرنے ہوتے ہیں، طاقت تو ان کے فیصلوں کے بعد استعمال ہوتی ہے ۔