دہشتگردی :سلامتی کونسل کی رپورٹ پاکستانی مؤقف کی تائید

دہشتگردی :سلامتی کونسل کی رپورٹ پاکستانی مؤقف کی تائید

اب افغان طالبان کوٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی یا ہاتھ کھڑے کرنا ہونگے

(تجزیہ:سلمان غنی)

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ افغان طالبان کے اس دعوے ‘‘عسکریت پسند سرحد پار دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین کو استعمال نہیں کر رہے ’’ کو مسترد کرنے کیلئے کافی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کو افغان  طالبان سے کافی لاجسٹک اور آپریشنل سپورٹ ملتی ہے اور یہی وہ حقیقی خطرہ ہے جس نے پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک کو سنگین خطرات اور خدشات لاحق کر رکھے ہیں ۔سلامتی کونسل کی یہ رپورٹ اپنی ساکھ کے اعتبار سے حقیقت پسندانہ اورپاکستان کے موقف کی واضح تائید ہے ۔پاکستان مسلسل یہ موقف اختیار کئے ہوئے تھا کہ افغان سرزمین کا پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال جاری ہے ،اقوام متحدہ اس سے قبل بھی اپنی ایک رپورٹ میں افغان سرزمین پر دہشتگردی، شدت پسندی کے عمل کا اعتراف کر چکا ہے ، لہذا مذکورہ صورتحال پر تجزیہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی فورسز اور اداروں کی جانب سے افغان سرزمین سے ملنے والے دہشت گردی کے ڈانڈوں کا حل کیا ہے اور افغان انتظامیہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی سے گریزاں کیوں ہے ،اور اب ہمسایہ ممالک اور خود سلامتی کونسل جیسا ادارہ ان کی تصدیق کر رہا ہے تو پھر اس ناسور کا علاج کیا اور کون کرے گا ؟۔

جہاں تک عالمی فورسز کی جانب سے افغان سرزمین پر دہشت گردی کا نوٹس نہ لینے کا سوال ہے تو امریکہ اور نیٹو افواج افغانستان میں بھاری نقصان کے بعد اسے عالمی ایجنڈا کا حصہ بنانے سے انکاری ہیں،عالمی طاقتوں کو خدشہ ہے افغان طالبان کی جگہ ان سے زیادہ انتہا پسند اور شدت پسند داعش نے لے لی تو یہ اور بڑا خطرہ بن جائے گا لیکن اس خطہ کے ممالک میں بڑی تشویش ہے ، خصوصاً پاکستان، روس، چین، ایران اس سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں ،پاکستان زیادہ پریشان ہے اور سمجھتا ہے اس کی معاشی طاقت بننے میں اصل رکاوٹ افغانستان کی صورتحال ہے ، طالبان حکومت حامد کرزئی اور اشرف غنی سے بھی بدتر ثابت ہوئی اور حقیقت یہی ہے کہ آج مغربی بارڈر پر پیدا شدہ صورتحال کا تجزیہ کریں تو اسلحہ امریکی، فنڈنگ انڈین اور سرزمین افغان ،ان سب کا ٹارگٹ پاکستان ہے اور ایجنڈا یہی ہے کہ پاکستان کو آگے نہ بڑھنے دیا جائے ۔ پاکستان سمجھتا ہے افغان سرزمین پر دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور مراکز کو ٹارگٹ کرنایا انجام تک پہنچانا زیادہ مشکل کام نہیں ،لیکن وہ ایسی صورتحال پیدا نہیں ہونے دے رہا کہ مذکورہ عمل کے اثرات خطے میں امن کو متاثر کر یں، افغان طالبان ٹی ٹی پی کوپاکستان پر دباؤ ڈالنے کیلئے ایک آلے کے طور پر دیکھتے ہیں ۔

طالبان حکومت پاکستان کے تحفظات پر ‘الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ’کی پالیسی پر گامزن ہے اور ٹی ٹی پی کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ قرار دیتے ہوئے ذمہ داری سے بچنا چاہتی ہے ۔ عالمی طاقتیں بھی طالبان پر موثر دباؤ نہیں ڈال رہیں ،البتہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ اور حالیہ کانفرنس کا اعلامیہ ظاہر کر رہا ہے کہ اب افغان طالبان کا ذمہ داری سے بچنا مشکل ہوگا اور انہیں یا تو ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی کرنا ہوگی اور یا ہاتھ کھڑے کرنا ہوں گے اور یہ ذمہ داری پاکستان پر آئے گی ۔پاکستان اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہے کہ افغان طالبان کا ٹی ٹی پی کیخلاف کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ سوچا سمجھا ہے ، جبکہ بھارت پاکستان کے خلاف جارحیت کے ارتکاب سے تو اب گریزاں ہے مگر پاکستان کو دفاعی محاذ پر رکھنے کیلئے دہشت گردی کا ارتکاب کر رہا ہے ،خصوصاً افغان طالبان بھارتی اشاروں پر متحرک نظر آرہے ہیں ،لہٰذا حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے ماننے والے نہیں اور دہشت گردی کے جن کو قابو کرنے کیلئے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی فورسز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں