حکومت بجلی خریداری سے نکل گئی ،مسابقتی بولی کا جلدآغاز
نجی سطح پر ابتدائی طور پر 200میگاواٹ تک خریدوفروخت ممکن ہوگی پاور ڈویژن کے ادارے پی پی ایم سی میں سیکرٹریٹ قائم کیا جائیگا ، کابینہ کمیٹی کے فیصلے
اسلام آباد ( اسلم لڑکا)حکومت بجلی کی خریداری سے مکمل طور پر نکل گئی اور اب ملک میں 800 میگاواٹ کے مسابقتی بولی کا عمل شروع ہوگا۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں بجلی کی خریدوفروخت اور انرجی پلاننگ کے حوالے سے اہم فیصلے سامنے آئے ہیں۔ اجلاس چیئرمین محمد ادریس کی زیرصدارت ہواجس میں سیکرٹری پاور ڈویژن نے کمیٹی کو بتایا کہ بڑے صارف اب متعلقہ بجلی تقسیم کار کمپنی کا نیٹ ورک استعمال کر کے ڈائریکٹ پاور پلانٹ سے بجلی خرید سکیں گے ۔ نجی سطح پر بجلی کی خریدوفروخت فروری تک شروع ہوگی اور ابتدائی طور پر 200 میگاواٹ تک بجلی کی خریدو فروخت کی اجازت ہوگی۔ اس کے لیے وفاقی کابینہ سے ویلنگ چارجز کی منظوری لینا ضروری ہے ، جو خریدار ترسیلی فیس کے طور پر ادا کرے گا۔اجلاس میں سیپکو میں سندھ کے محکموں کی جانب سے بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی اور اس کے اثرات پر بھی غور کیا گیا۔
وفاقی حکومت نے بجلی بقایاجات کی مد میں سندھ سے 8 ارب روپے براہ راست کاٹے ہیں جبکہ صوبوں کے مجموعی بقایاجات 166 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ صوبے اپنی بقایاجات کی ادائیگی بروقت کریں اور بجلی کے کنکشن سیاسی دباؤ کے تحت نہ لگائے جائیں۔ نیٹ میٹرنگ صارفین کے لیے کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، تاہم نیپرا نرخوں کے معاملے پر عوامی آرا طلب کر چکی ہے ۔اسی روز وزارت توانائی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق حکومت بجلی کی خریداری سے مکمل طور پر نکل گئی ہے اور اب ملک میں 800 میگاواٹ کے مسابقتی بولی کا عمل شروع ہوگا۔ کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے انٹگریٹڈ انرجی پلاننگ کے تحت تمام وفاقی اور صوبائی اداروں کی توانائی کی ضروریات، کھپت اور پیداوار کو مربوط کرنے کا فیصلہ کیا۔ جامع انرجی پلاننگ کے لیے پاور ڈویژن کے ادارے پی پی ایم سی میں سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا تاکہ ایک جگہ سے پالاننگ ہو اور پالیسی سازی میں معاونت حاصل ہو۔ اس فیصلے کے بعد ملک میں آزاد انرجی مارکیٹ کے قیام اور فروغ کی بنیاد رکھی گئی ہے اور بجلی کے آکشن کا طریقہ کار بھی شفاف بنایا گیا ہے جس کی ذمہ داری آئسموکو کو سونپی گئی ہے ۔