چینی ذخائر کے غلط اعدادوشمار اور کمزور برآمدی فیصلے بحران کی وجہ قرار
ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی بندش سے چینی بغیر نگرانی کے فیکٹریوں سے مارکیٹ میں منتقل ہوتی رہی این او سیز، کارٹلائزیشن اور سرکاری مداخلت نے چینی کی مصنوعی قلت اور قیمتوں میں اضافہ کو تقویت دی اگر ذمہ دار وں کے خلاف مؤثر کارروائی نہ کی گئی تو مستقبل میں شوگربحران دوبارہ جنم لے گا:پارلیمانی ذیلی کمیٹی
اسلام آباد (حریم جدون) شوگر بحران 2025 پر قائم پارلیمانی ذیلی کمیٹی کی رپورٹ نے چینی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے اور ملک بھر میں قلت کی بنیادی وجوہات کو بے نقاب کر دیا ۔ رپورٹ کے مطابق غلط پیداواری اور سٹاک ڈیٹا، کمزور نگرانی اور بروقت فیصلوں کے فقدان کے باعث چینی کی قیمت 120 روپے فی کلو سے بڑھ کر 200 روپے سے تجاوز کر گئی۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے ) نے پیداوار اور کیری فارورڈ سٹاک کے اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر پیش کیے جس کی بنیاد پر حکومت نے نومبر 2023 سے جنوری 2025 کے دوران چھ مرحلوں میں چینی برآمد کرنے کی اجازت دی۔ جنوری 2025 میں 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی کی برآمد کے نتیجے میں مقامی منڈی میں شدید قلت پیدا ہوئی۔ ذیلی کمیٹی کے مطابق پی ایس ایم اے نے تقریباً 13 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن زائد پیداوار ظاہر کی جس سے برآمدات کے فیصلے غلط ثابت ہوئے ۔
مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے کمیٹی کو بتایا کہ شوگر سیکٹر میں کارٹلائزیشن، ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں ہیرا پھیری ایک مستقل رجحان ہے تاہم ایف بی آر اور صوبائی کین کمشنرز کی جانب سے ریئل ٹائم ڈیٹا فراہم نہ کیے جانے کے باعث مؤثر کارروائی ممکن نہ ہو سکی۔ رپورٹ کے مطابق 2025 میں ایف بی آر کا ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم سات روز تک بند رہا جس دوران چینی بغیر نگرانی کے فیکٹریوں سے مارکیٹ میں منتقل ہوتی رہی اور بعض مل مالکان و ذخیرہ اندوزوں کو فائدہ پہنچا۔ذیلی کمیٹی نے نشاندہی کی کہ پنجاب اور بلوچستان میں منتخب ہول سیلرز کو این او سیز کے اجرا سے مصنوعی قلت پیدا ہوئی جبکہ بلوچستان میں چینی 220 سے 230 روپے فی کلو تک فروخت ہوتی رہی۔ رپورٹ میں مقامی سطح پر وافر دستیابی کے باوجود چینی درآمد کرنے کے فیصلے کو بھی مشکوک قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ شوگر سیکٹر میں حد سے زیادہ سرکاری مداخلت اور قیمتوں کے تعین نے کارٹل جیسے رویوں کو تقویت دی۔رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ شوگر سیکٹر میں مرحلہ وار ڈی ریگولیشن، ریئل ٹائم ڈیٹا شیئرنگ، سخت احتساب اور کم از کم 5 لاکھ 40 ہزار میٹرک ٹن بفرسٹاک کو ہر صورت برقرار رکھا جائے ۔ ذیلی کمیٹی نے خبردار کیا ہے کہ اگر ذمہ دار اداروں اور افراد کے خلاف مؤثر کارروائی نہ کی گئی تو مستقبل میں ایسے بحران دوبارہ جنم لیتے رہیں گے ۔