فٹ بال ہیروز کی دنیا عابد غازی کے پائے کا رائٹ ہاف آج تک پیدا نہیں ہوا

عابد غازی اپنی اعلیٰ اور قائدانہ صلاحیتوں اور کھیل میں اپنے جونیئرز کے ساتھ مشفقانہ رویہ کی بدولت فٹبال کے حلقوں میں عابد استاد کہلاتے ہیں۔ جن لوگوں نے عابد غازی کو کھیلتے ہوئے دیکھا ہے ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس پائے کا رائٹ ہاف آج تک پیدا نہیں ہوا جس کے کھیل کو دیکھ کر نہ صرف ایشیائی بلکہ یورپی کوچز بھی ششدر رہ جاتے تھے۔
کراچی (امتیاز نارنجا) وہ سوڈانی نژاد پاکستانی ہیں اور ورلڈ اسٹار اسپورٹس کی پاکستان کی آل ٹائم رینکنگ میں ٹاپ ٹین کھلاڑیوں میں شامل ہیں۔ عابد غازی نے 1952میں کیماڑی محمڈن کراچی سے اپنے فٹبال کیرئیر کا آغاز کیا۔ 1956 میں بطور پیشہ ور فٹبالر کلکتہ کیلئے ان کا انتخاب ہوا۔ 1964میں پاکستانی ٹیم نے چین کا دورہ کیا توعابد غازی اس کے کپتان تھے۔ کیماڑی محمڈن کی نمائندگی کرتے ہوئے عابد غازی نے ڈھاکہ، چٹاگانگ، کھلنا اوردیگر مقامات پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ 1964میں عابد غازی نے قومی ٹیم سے ریٹائرمنٹ لی تاہم وہ کیماڑی محمڈن سے بدستورکھیلتے رہے۔1971میں عابد غازی ڈھاکہ میں بھارت کے جنگی قیدی بن گئے۔ بھارتی فوجیوں کو جب ان کے انٹرنیشنل فٹبالر ہونے کا علم ہوا تو انہیں فوجیوں کو فٹبال سکھانے پر مامو رکرکے انہیں بیرک کمانڈر بنادیا۔ 1973میں جب ان کو رہائی ملی اور لاہور پہنچے تو انہیں پنجاب فٹبال ٹیم کا کوچ بنادیا گیا۔ معاہدہ ختم ہونے پر عابد غازی مالی مشکلات کا شکار ہوگئے۔ اس مشکل گھڑی میں قومی ہیرو نے کراچی شپ یارڈ میں بحیثیت ویلڈر ملازمت اختیار کر لی۔ بعد ازاں کے ای ایس سی نے عابد غازی کو کنٹریکٹ پر ٹیم کا کوچ مقرر کیا اور عابد غازی نے اپنی کوچنگ سے کے ای ایس سی کو ایک بہترین ٹیم میں تبدیل کردیا، ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں مستقل ملازمت دے دی گئی۔ عابد غازی عرف عابد استاد بھٹہ ولیج میں ایک کھیلوں کے سامان کی دکان چلا رہے تھے لیکن وہ اسے بند کرنے پر مجبور ہوگئے۔ عابد غازی ان دنوں سخت علیل اور انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں ۔ حکومت وقت اور نہ ہی پاکستان فٹبال فیڈریشن کے صدر فیصل صالح حیات کی نظر کرم ان پر پڑی ہے۔ شائد عابد غازی بھی دوسرے قومی کپتانوں کیپٹن عمر، تراب علی، موسیٰ غازی، حسین کلر، عبدالغفورو دیگر انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی طرح یہ حسرت دل میں لئے دنیا سے رخصت ہوجائے گا کہ کاش اسے بھی قومی ہیرو کا درجہ دے کر اس کی گرانقدر خدمات کا صلہ اس کی کسمپرسی کو دور کر کے دیا جاتا۔