کئی سال پہلے ایک یورپی مصنف کی کتاب پڑھی جس میں انسانی شخصیت کی تعمیر اور اسے بہتر بنانے کے لیے مختلف فیکٹرز کا ذکر کیاگیاتھا۔ان میں ایک کتابیں پڑھنا تھا۔مصنف نے ایک دلچسپ فقرہ لکھا کہ جو لوگ کتابیں نہیں پڑھتے،مجھے حیرت ہے کہ وہ زندگی کس طرح گزار رہے ہیں۔ اس کا کہنا تھا،ہرشخص کو آزادی ہے کہ وہ اپنی مرضی کی کتابیں منتخب کرے۔کتابیں اپنی افتاد طبع، سوچ اور مزاج کے مطابق ہی چنی جاتی ہیں، مگر مطالعے کا کچھ فیصد حصہ لازماًفکشن پر مشتمل ہونا چاہیے۔کہانیاں، ناول اورکچھ نہ کچھ شاعری بھی ضرور پڑھنی چاہیے کہ یہ انسان کو اندر سے سافٹ بناتی اور اسے خواب دیکھنا سکھاتی ہے۔فکشن پڑھے بغیرزندگی کے بہت سے محسوسات سے آگہی ممکن نہیں ۔
کتاب پڑھنے کے بعد میں سوچتا رہا کہ ا سے لکھنے والا کوئی ادیب نہیں بلکہ ایک پروفیشنل ٹرینر اور پرسنالیٹی مینجمنٹ کا ماہر ہے جس کا کام کامیاب زندگی گزارنے کے گُر بتانااوراپنی عملی زندگی میں دوسروں سے آگے نکلنا سکھانا ہے۔اس نے کہانیاں پڑھنے پرکیوں زور دیا، فکشن اس کے نزدیک ہرایک کے مطالعے کا جزیوں ہونی چاہیے؟ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ فکشن خواب دیکھنا سکھاتی ہے، ناممکن کو ممکن بنانے، ناقابل حاصل کو حاصل کرنے کی خواہش پیدا کرتی ہے۔جب تک کوئی سپنانہیں دیکھے گا ،وہ اسے پورا کرنے کی جدوجہد کیسے کرے گا؟ورک مینجمنٹ اورسیلف ہیلپ کی کتابیں اس وقت تک بیکار ہیں جب تک اپنا آپ یا اپناگردوپیش بدلنے کی خواہش نہ ہو۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثروالدین اپنے بچوں کو فکشن پڑھنے سے منع کرتے ہیں،ان کے خیال میںبچے جنوں بھوتوں، پریوںاور سپرہیروزکی بیکارکہانیاں پڑھ کر وقت ضائع کرتے ہیں۔ یہ بات مگروہ نہیں جانتے کہ بظاہربیکار نظر آنے والی ان کہانیوں کے ذریعے بچوں کے اندرایسا بہت کچھ شامل ہو رہا ہے جوعمر بھر ان کے ساتھ رہے گا،وہ مطالعے جیسی مفید عادت پیداکررہے ہیں جس کے ذریعے ان کی شخصیت کا ارتقا ہوتا رہے گا۔
دوسروں کے بارے میں تو معلوم نہیں مگر مجھ جیسے لوگوں کی زندگیوں میں کتابوں کا اہم حصہ رہا ہے، کتابوںنے ایسی مسرت و انبساط عطا کی جس کی سرشاری اورلذت زندگی بھرساتھ رہے گی۔ مجھے یاد ہے،چھ سات سال کی عمر میں ایک دیوار سے گرنے کے باعث میرا بایاں بازو فریکچر ہوگیاتھا۔چند ہفتوں کے لیے پلستر باندھ دیاگیا؛چنانچہ وہ پورا عرصہ گھر میںگزارنا پڑا۔ مجھے بستر تک مقید رکھنے کے لیے والد صاحب اردو کہانیوں کی چندکتابیں لے آئے۔ یہ ٹارزن اورعمروعیارکی کہانیاں تھیں۔میری اردو ریڈنگ بری نہیں تھی،پڑھنا شروع کیا توکہانی کے سحر نے جکڑ لیا اور ساری کتابیں پڑھ ڈالیں۔اگلے روز مزیدکتابوںکی فرمائش کر دی جو پوری کردی گئی۔فریکچراور پلستر میرے لیے ایک نئی دنیا کا دروازہ کھول گئے۔ رفتہ رفتہ کہانیوں کی ان پتلی پتلی کتابوں کی جگہ رسالوں اورڈائجسٹوں نے لے لی۔ پہلے ابن صفی پھرمظہرکلیم کی عمران سیریز زیرمطالعہ آگئے۔جاسوسی ادب،الف لیلہ،طلسم ہوشربا سے آگے بڑھے توہلکے پھلکے شگفتہ ادب سے واسطہ پڑا۔ شفیق الرحمان میری پہلی چوائس تھی،پھر ابن انشا،مشتاق احمد یوسفی اورایک دن محمد خالد اخترکی کتاب ''چاکی واڑہ میں وصال ‘‘ہاتھ لگی۔محمد خالد اختر کا اپناہی ذائقہ ہے۔ان کی چمکتی، مسکراتی نثرکو پڑھنا ایک دلچسپ تجربہ رہا،ان کی لکھی چچا عبدالباقی کی کہانیاں بھی خاصے کی چیز ہے۔ ان کی نثر پر انگریزی نثرکے گہرے اثرات ہیںکہ وہ بنیادی طور پرانگریزی میں سوچتے اورپھراسے اردو کے قالب میں ڈھالنے
والے ادیب تھے۔ جس نے انہیں نہیں پڑھا، اس نے بہت کچھ مس کیا۔سب رنگ کا ذکرضرورکرنا چاہوں گا کہ اس ڈائجسٹ نے میری زندگی پر گہرے اثرات ڈالے۔عالمی اور اردو کے شاہکارادب سے اسی ڈائجسٹ نے روشناس کرایا۔شکیل عادل زادہ اس لحاظ سے مجھ جیسے لوگوں کے محسن ہیں۔خوش قسمتی سے ہمارے شہراحمد پورشرقیہ میں بلدیہ کی اچھی لائبریری تھی۔اس زمانے میں کرائے کی لائبریریوں کا رواج ابھی باقی تھا۔ بازار میں قمر لائبریری تھی،اس سے کتابیں، رسالے اور ڈائجسٹ لے کر پڑھے۔پہلے ایک ،دوپھر پانچ روپے روزانہ کرایہ تھا۔ کرایہ بچانے کی غرض سے ساری رات جاگ کر پڑھنا پڑتا۔اس سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ سپیڈ بہت تیزہوگئی۔ پھرکالج لائبریری سے بھی کتابیں پڑھنے کا موقعہ ملا، خاص طور پر مذہبی کتابیں۔۔۔علامہ شبلی اورسید سلیمان ندوی کی سیرت النبیﷺ، امام غزالی اور شاہ ولی اللہ کی کتابیںان میں سرفہرست ہیں۔اتنی ضخیم اورمہنگی کتابیںخرید کر پڑھنا ہمارے لیے ممکن نہ تھا۔ تاریخ کاچسکا سکول کے زمانے سے پڑ چکا تھا، مگر کالج میں تاریخ طبری اور تاریخ ابن خلدون پڑھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ والدصاحب بعدمیں بارہاکف افسوس ملتے پائے گئے کہ میں نے اسے کہانیوں سے روشناس کیوں کرایا؟ انہیںاعتراض تھاکہ میںکورس کی کتابوں سے زیادہ فکشن کی کتابوں میں مگن پایا جاتا تھا۔ بات توان کی درست تھی،شایدانہیں علم نہیں تھا کہ ایک دن یہی پڑھاہوا میرے روزگارکا وسیلہ بن جائے گا۔
کتابوں کے حوالے سے یہ سب یادیں مشہور برطانوی ادیب نیل گیمن کاایک لیکچرپڑھ کرتازہ ہوگئیں ۔اس لیکچر نے دنیا بھرکے علمی اورادبی حلقوں میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔میں نے دنیا کے سنڈے میگزین کے لیے اس کا ترجمہ کرایا ہے۔اس لیکچرکاہمارے بعض لکھنے والوں نے بھی تذکرہ کیا ہے۔نیل گیمن نے بڑی خوبصورت، دلنشیں باتیں کی ہیں۔انہوں نے بھی فکشن پڑھنے پر زور دیاہے۔کہتے ہیں: ''فکشن کے دو فائدے ہیں، یہ آپ کو پڑھنے کا عادی بناتاہے،آپ نئے لفظوں سے روشناس ہوتے ہیں اور آپ کو نئے خیال ملتے ہیں۔دوسرا فائدہ یہ ہے کہ آپ کی دوسروں کے ساتھ موافقت یا ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔آپ پڑھتے ہوئے اپنے تخیل کی مدد سے ایک دنیا تخلیق کرتے ہیں،خود چیزوں کو محسوس کرتے ہیں،ان جگہوںکو دیکھتے ہیںجہاں شاید کبھی نہ جا پاتے۔ ہرکردار میں آپ کو اپنے وجود کا کچھ حصہ دکھائی دیتا ہے۔جب آپ اپنی دنیا میں واپس آتے ہیں تو بدل چکے ہوتے ہیں۔کتاب پڑھتے ہوئے دنیا کے بارے میں ایک اوراہم چیز بھی سیکھ لیتے ہیں کہ دنیا کوبدلا جاسکتا ہے ‘‘۔
نیل گیمن نے بعض بڑی دلچسپ مثالیں بھی دی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 2007ء میں چین کی تاریخ کا پہلا سائنس فکشن کنونشن ہوا۔ میں نے چینیوں سے وجہ پوچھی توجواب ملا کہ ہم چینی نقال اچھے ہیں،دوسروں کے آئیڈیاز پرکام کرکے شاندارچیزیں بنا سکتے ہیں، مگر کوئی نیا آئیڈیا پیدانہیں کرسکتے،کچھ غیرمعمولی ایجاد نہیںکر پاتے، ہم نے دنیا کی بڑی کمپنیوں میں ایک ٹیم بھیجی جس نے تحقیق کرکے کھوج لگایا کہ دنیاکے بڑے بڑے ایجاد کرنے والے بچپن میں سائنس فکشن پڑھاکرتے تھے۔ نیل گیمن کے خیال میں بچوں کے ساتھ اس سے بڑا ظلم اورکوئی نہیں کہ ان کے لیے دلچسپ کتابیں نہ لکھی جائیں، پھریہ کتابیں ان بچوں تک پہنچنی چاہئیں،اس کے لیے لائبریریوں کی ضرورت ہے۔ جو حکومتیں رقم بچانے کے لیے لائبریریاں بندکر رہی ہیں، وہ اپنا آج بچانے کے لیے اپنا مستقبل دائو پرلگا رہی ہیں،ایسے دروازے بند کر رہی ہیںجن کا کھلے رہنا ضروری ہے۔برطانوی مصنف نے ہم سب کوایک مشورہ بھی دیا ہے:'' اپنے بچوں کو پاس بٹھا کر انہیں کتابیں پڑھ کرسنائیں۔ وہ کتابیں پڑھیں جو انہیں پسند ہوں، وہ کہانیاں جن سے آپ اکتا چکے ہوںبچوں کے لیے نئی ہیں۔کہانی سنانے میں اپنی آواز کے اتارچڑھائو سے مدد لیں،اسے دلچسپ بنانا سکھائیں۔اگر بچے خود پڑھنا سیکھ چکے ہوں تب بھی آپ انہیں خود پڑھ کرکہانیاں سنائیں، اس طرح آپ اپنے بچوں کے قریب آئیں گے۔بڑوں، بچوں، لکھنے والوں اور پڑھنے والوں سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواب دیکھیں۔ ہم انفرادی طور پر بہت کچھ کر سکتے ہیں، مگر یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ہم حالات بدلنے کا خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ آخر کسی نے یہ سوچا ہوگا کہ زمین پر بیٹھنے سے زیادہ بہترکرسی پر بیٹھنا ہے،اس کے ذہن میں کرہ ارض کی پہلی کرسی آئی اور پھرآج کرسی کا زندگیوںمیں عمل دخل سب کے سامنے ہے‘‘۔
نیل گیمن نے اپنے لیکچرکااختتام آئن سٹائن کے ایک خوبصورت اورنہایت موثر قول پر کیا۔جدید دور کے سب سے بڑے سائنس دان سے جب پوچھا گیا کہ بچوں کوذہین کیسے بنایا جائے تواس کا جواب تھا:اپنے بچوں کو پریوں کی کہانیاں سنائیں، اگراپنے بچوںکواور زیادہ ذہین بنانا ہے توانہیں اور زیادہ پریوں کی کہانیاں سنائیں۔