نائیجیریا کے بوکو حرام

گزشتہ روز ایک فیس بک تھریڈ دیکھا،جس میں نائیجیریا کے شدت پسند مسلح گروپ بوکو حرام کے کمانڈر ابوبکر شیخائو کے بیان پر بحث جاری تھی۔ اس گروپ نے چند دن پہلے شمالی نائیجیریا کے ایک سکول سے تین سو طالبات اغوا کر لی تھیں، اب ابوبکر شیخائو کی جانب سے ایک ویڈیو منظر عام پرآئی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہم نے ان لڑکیوں کو فروخت کر دیا ہے۔ کمانڈر موصوف نے ایک عجیب وغریب منطق یہ پیش کی کہ یہ لڑکیاں اللہ کی ملکیت تھیں، مجھے اللہ نے حکم دیا اور میں نے اللہ کی ملکیت ان لڑکیوں کو فروخت کر دیاہے۔ فیس بک کے اس سٹیٹس پر یہ بحث جاری تھی کہ بوکو حرام نامی یہ گروپ خود کو مجاہدین اسلام سمجھتا اور کہتا ہے، ان کے یہ تمام اقدامات ایک مذہبی تعبیر کے پیش نظر ہوئے ہیں۔ بعض لوگ اس پر شدید تنقید کر رہے تھے تو جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ ایک دو اسلامی ذہن رکھنے والوں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا یہ نام نہاد مسلمان ہیں ، ایسا کام کوئی مسلمان نہیں کر سکتا ... وغیرہ وغیرہ۔ 
بوکو حرام کے بارے میں زیادہ قارئین نہیں جانتے ہوں گے۔یہ شمالی نائیجیریا ، کیمرون کے کچھ (شمالی) حصے اورنائیجر وغیرہ میں سرگرم ہے۔ بنیادی طور پر شدت پسند مذہبی تنظیم ہے، جس کا پورا نام ''جماعتہ اہل سنتہ للدعوہ والجہاد ‘‘ ہے۔اسے بارہ برس قبل ایک مسلم سکالرمحمد یوسف نے قائم کیاتھا۔ اس گروپ کے ڈانڈے اسلامی تحریکوں سے جا ملتے ہیں، محمد یوسف کے اساتذہ بھی عالمی اسلامی تحریکوں سے متاثر تھے، مگر یوسف زیادہ سخت گیر او رشد ت پسند طرز فکر کی طرف چلے گئے، انہوںنے بدعت اور گمراہی کے خلاف ''جہاد‘‘ کی ٹھانی اور تکفیریت آمیز سخت گیر سلفیت سوچ کو آگے بڑھایا۔ مغربی تہذیب کی مخالفت اس گروپ کا بنیادی جز تھا۔ ان کے مطابق مغربی تہذیب کفر ہے ، جس سے اجتناب ہر حالت میں کرنا چاہیے،الیکشن ،جمہوریت، ووٹ سے لے کر مغربی لباس (پینٹ شرٹ)پہننا ، حتیٰ کہ مغربی تعلیم حاصل کرنا بھی اس گروہ کے نزدیک حرام یا کفر ہے۔ اسی وجہ سے مقامی زبان ہائوسا میں اسے بوکو حرام (لفظی معنی مغربی تعلیم حرام ہے)کہا جانے لگا۔ عالمی سطح پر یہ تنظیم بوکو حرام کے نام ہی سے مشہور ہے۔مدوغری، کانو، قدونہ، یوبے وغیرہ میں اس کا زیادہ اثر ہے۔ محمد یوسف تو پانچ سال پہلے نائیجیرین پولیس سے ٹکرائو میںہلاک ہوگئے ، اب اس کے دو تین گروپ بن چکے ہیں، سب سے اہم ابوبکر شیخائو کا گروپ ہے۔ پچھلے چند برسوں میں اس گروپ نے عیسائی عبادت گاہوں پر حملے کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس اور حکومتی اداروں کو بھی بم دھماکوں کا نشانہ بنایا۔ سرکاری سکول جہاں انگریزی زبان میں نصاب پڑھایا جاتا ہے، ان کا ہدف ہے۔ بوکو حرام کے نزدیک صرف دینی تعلیم دینی چاہیے، مغربی تعلیم کو وہ مغربی تہذیب کا بچھایا جال سمجھتے ہیں۔ چند ماہ پہلے انہوں نے ایک سکول پر حملہ کر کے بہت سے طلبہ کو ہلاک کر دیا تھا، تازہ حملے میں لڑکیاں اُٹھا لیں۔ 
تین چار سال پہلے مجھے نائیجیریا جانے کا موقعہ ملا۔ شمالی نائیجیریا کی تین چار مشہور ریاستوں کانو، قدونہ، مدوغری اور دارالحکومت ابوجا دیکھنے کا موقعہ ملا۔ یہ نہایت دلچسپ تجربہ تھا۔ یہ کالم لکھتے وقت اس سفر کے نوٹس موجود نہیں ، مگر بہت سی باتیں یادداشت میںتازہ ہیں۔ نائیجیریا کے بہت سے مسائل پاکستان سے ملتے جلتے ہیں۔ہرجگہ کرپشن، کمزور سسٹم ، زوال پذیر بلکہ تباہ حال ادارے اور سماجی سطح پر کنفیوزڈ صورتحال ۔ نائیجیریا میں مسلمان اکثریت میں ہیں ، تقریباً باون فیصد، وہاں اڑتالیس فیصد کے قریب عیسائی رہتے ہیں۔ ایک بار صدر عیسائی ، دوسری بار مسلمان چنا جاتا ہے ۔مسلم ریاستیں شمال میں ہیں اور زیادہ تر پسماندہ۔ یہ اتفاق ہے یا کوئی سازش کہ مسلمان ہر شعبے میں بہت پیچھے ہیں، جبکہ عیسائی خوشحال اور اہم جگہوں پر فائز ہیں۔ مسلمان ریاستیں سماجی طور پر بھی پسماندہ ہیں۔ ہائوسا اکثریتی زبان ہے۔ مجھے تو اس میں عربی کے اثرات لگے۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی سکوٹو سلطنت وہاں خاصا عرصہ رہی، بیسویں صدی کے اوائل میں وہ ختم ہوئی۔ ہماری طرح کے بعض مسلکی اختلافات بھی وہاں موجود ہیں۔ عیدیں بھی دو تین مختلف دنوں میں ہوتی ہیں۔ وہی ہمارے والا اختلاف۔نائیجیرین مسلمانوںنے عیدین وغیرہ اور دیگر اہم مذہبی تنازعوں کے فیصلہ کے لئے سلطان آف سکوٹو کا عہدہ برقرار رکھا ہوا ہے، ایک طرح سے وہ روحانی سربراہ ہیں، نائیجیرین مسلمانوں کے۔ ویسے ہر ریاست کا ایک امیر یا ایمیہ بھی ہے،جونائیجیرین کلچر اور روایات کا کسٹوڈین ہے۔مدوغری کے ایمیہ(امیر)سے ملنے کا مجھے اتفاق ہوا، روایتی لباس میں ملبوس انہوںنے ہاتھ میں نیزہ تھاما ہوا تھا،ان کے ساتھ لکڑی کی مصنوعی بندوقیں اٹھائے مصاحبین تھے۔ یہ سب امیر سلطان آف سکوٹو کے ماتحت تھے۔ یہ سیٹ اپ غیر سرکاری اور غیر رسمی تھا، ورنہ صدارتی نظام نافذ ہے، صوبوں میں منتخب گورنرمعاملات چلاتے ہیں۔
کئی مسلم ممالک کی طرح نائیجیریا میں بھی مغربی تہذیب کے غلبے کا خوف موجود ہے۔ غیر مسلمان بہت بڑی تعدا د میں ہیں، جنہیں مغربی این جی اوز سے فنڈنگ بھی ملتی ہے۔ ٹی وی، فلم ، اخبارات ہر جگہ جدید تہذیب اور جدید نظریات کی یلغار ہے، مسلمان اس کا کائونٹر کرنے کے لئے معاشی وسائل نہیں رکھتے، علمی اور فکری تنظیمیں زیادہ نہیں، جدید اسلوب میں بات کرنے والے علما کم ہیں، جو ہیں وہ شدت پسند مذہبی فکر رکھنے والوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ قدونہ میں ہماری میزبان حجہ فاطمہ نے بتایا کہ وہ ایک عالم دین یا شیخ کو پسند کرتی تھیں، مگر وہ پراسرار طور پر قتل ہوگئے، ان کی معتدل سوچ کی بنا پر شدت پسند گروپ مخالف ہوگئے تھے۔ یہ شدت پسند گروہ تکفیر ی سوچ کے حامل ہیں۔
اپنے مخالفین بلکہ اپنی حمایت نہ کرنے والوں کو وہ کافر قرار دیتے اور انہیں قتل کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ یہ وہ مخصوص تکفیری سوچ ہے ،جس کے اثرات مشرق وسطیٰ سے اب ہمارے خطے میں بھی آ گئے ہیں۔ 
سچی بات تو یہ ہے کہ جب کوئی گروپ، تنظیم یا جماعت اسلام کا نام لے کر شدت کا مظاہرہ کرتی ہے یا بوکو حرام جیسی جنونیت کے کام کرتی ہے تو ہمیں دلی دکھ ہوتا ہے۔ میرے جیسے لوگ جو خود کو ایک طرح سے رائٹ ونگ کے ہمدرد تصور کرتے ہیں، انہیں شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے رائٹ ونگ کی مذہبی جماعتیں اور دانش وربعض اوقات اس قسم کے معاملات میں خاموشی اختیار کرتی ہیں۔ ان میں سے اکثر مذہبی شدت پسندی کے مظاہر کو ناپسند بھی کر رہے ہوتے ہیں، لیکن چونکہ اکثر معاملات میں ان گروپوں کے مدمقابل مغربی سامراج یا امریکہ ہے تو انہیں شائد یہ لگتا ہے کہ ایک واضح پوزیشن لینے سے مغربی قوتوں کو تقویت نہ مل جائے۔ حالانکہ یہ بالکل غلط حکمت عملی ہے۔ رائٹ ونگ کے لوگوں کو بڑی مستعدی اور سرعت کے ساتھ خود کو ایسے شدت پسند گروپوں سے الگ کرنا چاہیے ، ان کی مذمت کرنی چاہیے اور خاص کر ان کے مذہبی استدلال کو پوری قوت سے رد کرنا چاہیے۔ بوکو حرام کا حالیہ اقدام تو خیر جنونیت اور حماقت کی انتہا ہے، اس کی حمایت کون کر سکتا ہے ، مگر اس جیسی تکفیری سوچ رکھنے والی تنظیموں اور گروپوں کو امت کے جمہور سے الگ کر دینا چاہیے۔ اس حوالے سے ایک واضح پوزیشن لینے کی ضرورت ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں