ہمارے ہا ں جو مختلف فکری بحثیں اہل علم و قلم میں چلتی رہتی ہیں، ان میں سیاسی اعتبارسے نمایاں ترین جمہوریت کی بحث ہے۔ہر کچھ عرصے کے بعد یار لوگوں کو جمہوریت کا مقدمہ لڑنے کا خیال آ جاتا ہے۔ نت نئے دلائل تراشے جاتے اور حکومت وقت پر تنقید کرنے والوں کوصبر وتحمل سے کام لینے کا بھاشن دیا جاتا ہے۔ایسا مجبوراً اس لئے بھی کرنا پڑتا ہے کہ ہمارے بیشتر سیاستدان جمہوریت کا محض نام لیتے اور اسے اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں، ورنہ ان کا جمہوریت اور جمہوری نظام سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا ۔ ان میں سے اکثر ڈکٹیٹرشپ کی پیداوار ہیں اور کسی نہ کسی آمر نے انہیں سیاسی قوت بخشی۔ کسی نے آمرِ وقت کو ڈیڈی کہا تو کسی نے اپنی خدمت سے وہ مقام حاصل کر لیا کہ ڈکٹیٹر اپنی اولاد کے بجائے سیاسی جانشینوں کو دعا ئیں دینے اور اپنی عمر بھی اسے لگ جانے کا مژدہ سناگیا۔جب تک اسٹیبلشمنٹ ان کی مجبوری تھی، انہوں نے اس کے ساتھ ہاتھ ملائے رکھا اور جب ان کی بے پناہ ، لامحدود قوت حاصل کرنے کی خواہش کے سامنے اسٹیبلشمنٹ رکاوٹ بنی، تب انہیں سب خامیاں اسی میں نظر آنے لگیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ موجودہ سیاسی نظام یا حکمران جماعت پر تنقید کرتے ہیں، ان کا مقصد جمہوریت یا سیاست کو مطعون کرنا ہرگز نہیں ہوتا۔میرے جیسے لوگ غیر جمہوری رویوں کی اصلاح چاہتے اور جمہوریت کے نام پرسیاسی استحصال سے بیزار ہیں۔اس حوالے سے تین چار عام فکری مغالطے پائے جاتے ہیں، انہیں سمجھ لیا جائے تواس ایشو کی تفہیم مشکل نہیں اورخلط مبحث سے بچا جا سکتا ہے۔
جمہوریت بمقابلہ آمریت : سب سے پہلا مغالطہ یہی ہے۔ پاکستان میں جیسے ہی کسی سویلین حکومت پر تنقید ہو، اس کے حامی فوری طور پر آمریت کی دہائی دینے لگتے ہیں۔ انہیں یہی لگتا ہے کہ کہیں کسی آمر کے لئے راہ ہموار نہ کی جا رہی ہو۔ شائد اس لئے کہ ماضی میں فوجی آمر آتے بھی رہے ہیں اور ہرباراہل قلم کے ایک حلقے نے بھی ان کا استقبال کیا۔ماضی کے تلخ تجربات اپنی جگہ، مگر بہرحال جمہوری اصلاحات کی بات ہم لوگوں نے ہی کرنی ہے۔ اگر ہماری انتخابی نظا م سو گنا مہنگا ہوچکا ہے، تین چار ارب کا الیکشن تین چار سو ارب تک جاپہنچا ہے تو اس خطرناک حد تک پہنچے الیکشن سسٹم کو نیچے لانا، لوئرمڈل کلاس نظریاتی کارکنوں کو دوبارہ اس میں شامل کرنے کی بحث انٹیلی جنشیا ہی نے کرنی ہے ۔اس طرح صرف جمہوریت جمہوریت کی رٹ لگائے رکھنا اور سیاسی جماعتوں کو غیر جمہوری انداز میں چلانے رکھنے پر تنقیدکا پورا جواز بنتا ہے۔اب یہی دیکھ لیجئے کہ مسلم لیگ ن کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس تین ، ساڑھے تین سال بعد ہو رہا ہے۔ وہ بھی اس لئے کہ الیکشن کمیشن کی پابندی ہے اور نام نہاد سہی ،پارٹی الیکشن کرانے مقصود ہیں۔ دنیا کے کسی جمہوری ملک میں اس کا تصور تک نہیں کہ حکمران جماعت کئی سال تک اپنی مرکزی کمیٹی کا اجلاس تک نہ بلائے ،مگر جس ملک میں کئی کئی ہفتے، مہینے کابینہ کا اجلاس تک نہ بلایا جائے، وہاں سیاسی جماعت بیچاری کی کیا اوقات ہے۔ اس لئے جمہوریت کا نام لیوا سیاستدانوں پر تنقید لازمی ہوگی،مگر براہ کرم اس نکتہ چینی کو آمریت کی حمایت میں نہ ڈالا جائے۔ اصل موازنہ اچھی جمہوریت بمقابلہ بری جمہوریت کا بنتا ہے۔ جمہوریت بمقابلہ آمریت والے فارمولے کا کوئی بھی سنجیدہ اہل قلم حامی نہیں ہوسکتا۔ دنیا بھر میں یہ بات اب طے ہوچکی ہے کہ حکومت چلانا سیاستدانوں کا کام ہے، فوج کا نہیں۔فوج اپنے معاملات دیکھے ، جسے اس کے علاوہ کوئی اور نہیںنمٹا سکتا، زیادہ سے زیادہ عسکری ماہرین کی آئوٹ پٹ نیشنل سکیورٹی امور میں چاہیے ہوتی ہے، کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی یا نیشنل سکیورٹی کونسل کے ذریعے یہ کام آسانی سے ہوسکتا ہے۔
نام نہاد جمہوریت : اصل اعتراض یہی ہے کہ ملک میں نام نہاد جمہوریت قائم ہے۔ سیاستدانوں کو صرف اپنے اقتدار کے لئے جمہوریت کا نام استعمال نہیں کرنا چاہیے ، جس نظام نے انہیں حکومت دی اور دوسروں سے ممتاز بنایا، اس کے ان پر کچھ قرض بھی ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ دنیا بھر میں بلدیاتی اداروں کو جمہوری نظام کی پہلی اور سب سے اہم سیڑھی سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے بہت سے ممالک میں بیشتر محکمے اور ذمہ داریاں لوکل گورنمنٹ یعنی بلدیاتی اداروں کے پاس ہیں ۔ نیویارک کے میئر کی طاقت دنیا کے کئی ممالک کے سربراہان سے زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ پورا ایک سال ہوگیا، مگرپنجاب اور سندھ میںبلدیاتی ادار ے فنکشنل ہی نہیں ہوسکے۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن اور سندھ میں پیپلزپارٹی حکمران ہیں، دونوں کی قیادت جمہوریت کی رٹ لگاتی اور خود کو اس کا عظیم چیمپین سمجھتی ہیں، مگر ان کی پوری کوشش ہے کہ بلدیاتی ادا رے اپنا کام شروع نہ کر سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب کے تمام اضلاع میں مسلم لیگ ن کے حامی جیتے ہیں، ایسا نہیں کہ انہیںخدشہ ہے کہ زیادہ تر اضلاع میںا پوزیشن کے میئروغیرہ بن کر حکومت کو ٹف ٹائم دے سکیں گے۔ کسی ایک ضلع میں بھی اپوزیشن کی اکثریت موجود نہیں۔ اس کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب، صوبائی حکومت اورخود جناب وزیراعظم کو ذرا بھر جلدی نہیں کہ بلدیاتی نظام اپنا کام شروع کر ے اور لوگ مقامی سطح پر اپنے منتخب کونسلرز،چیئرمین وغیرہ سے کام کرا سکیں۔
موروثی سیاست: جب موروثی سیاست پر تنقید ہو تومسلم لیگ ن یا دیگر سٹیٹس کو کی حامی جماعتوں کے کارکن اور میڈیا میں موجود ان کے حامی برہم ہوجاتے ہیں۔ انہیں شائد یہ خطرہ ہوتا ہے کہ اس تنقید سے موجودہ یا آنیوالے سیاسی شہزادوں، شہزادیوں کا کیرئر خطرے میںپڑ جائیگا۔ اس لئے بڑے شدومد سے اس کی مخالفت کی جاتی اور مختلف ممالک سے اس کی مثالیں ڈھونڈ کر پیش کی جاتی ہیں۔ یہاں بھی اعتراض بہت سادہ ہے۔ آئین ہر ایک کو سیاست کرنے کا حق دیتا ہے۔ ہم میں سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بڑے سیاستدان کے بیٹے یا بیٹی کو سیاست کرنے سے روک سکے۔ کوئی روکنا بھی نہیں چاہتا۔ یہ البتہ کہا جاتا ہے اور ایسا منطقی اعتبار سے درست ہے کہ اپنے بڑے باپ یا ماں کی وجہ سے کسی کو سیاست میں جمپ نہ ملے۔ جو بھی آنا چاہتا ہے، وہ آئے اور سیاسی کارکن کے طور پر اپنا کیرئر شروع کرے۔ جمہوری مراحل سے گزرنے کے بعد اگر اس میں ہمت یا قوت ہوگی تو وہ پارٹی میں اہم منصب حاصل کر لے گا۔ اس کے برعکس عام مشاہدہ یہی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں دراصل خاندانی جائیداد کے طور پر ڈیل کی جاتی ہیں۔ لیڈر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس بچے کو سامنے لے آنا ہے اور پھر تمام ضابطے ، دستور
توڑ کر اسے مرکزی جگہ مل جاتی ہے۔ بعض اوقات تو بغیر الیکشن لڑے ہی اہم ذمہ داریاں تفویض کر دی جاتی ہیں۔ ایسا بھی ہوا کہ صاحبزادہ ایم این اے ہے،اسکی جگہ مرکز اور قومی اسمبلی ہے، مگر والد صاحب کی اشیرواد پر صوبائی معاملات وہ چلا رہا ہے، بلکہ کبھی تو پوری پوری صوبائی حکومت اس کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ ہم نے تو ایسا بھی دیکھا کہ یونیورسٹی میںتعلیم حاصل کرنے والے نوجوان کو ملک کی سب سے بڑی جماعت کا سربراہ بنا دیا گیا اور پھر وہ منظر دیکھا گیا کہ سیاست میں بال سفید کرنیوالے تجربہ کار سیاستدان سرجھکائے بیٹھے ہیں اور برخوردار صدارت فرما رہے ہیں۔ یہ وہ نام نہاد جمہوریت اور موروثی سیاست ہے ، جس سے بیزاری ظاہر کرنا اور اس پر تنقید کرنا ہم سب کے لئے لازمی ہے۔
وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا:یہ وہ فقرہ ہے جس کی مدد سے ہر قسم کی تنقید ٹالی جا سکتی ہے۔ بڑی سے بڑی بات کے جواب میںصرف یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ سیاستدانوں کو وقت ہی کتنا ملا؟ وقت گزرنے کے ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ فقرہ نہ صرف غلط اورکوڑا کرکٹ صاف کرنے کے بجائے قالین کے نیچے چھپانے کی کوشش ہے۔ بھائی خود بخود کیوں سب ٹھیک ہوجائے گا؟ جب استحصال کرنے والوں کو آپ روکیں گے ہی نہیں، ان کی غیر مشروط حمایت کریں گے تو وہ اپنے طور طریقے آخر کس بنا پر تبدیل کر لیں گے؟مجھے تویہ لگتا ہے کہ آمروں سے زیادہ نقصان جمہوریت کو ایسے ہی نادان دوستوں نے پہنچایا ہے۔ جمہوری نظام کی خامیوں کو دور کرنے، سیاستدانوں کو ٹف ٹائم دینے کی جنہوں نے کوشش ہی نہیں کی۔ جب سویلین حکومتوں کے بلنڈرز کی وجہ سے سب کچھ جاتا رہے، تب ایسے ہمدردوں کو احساس ہوتا ہے، مگرتب تک آمریت کی سیاہ رات امڈ آتی ہے اور پھر برسوں تک جدوجہد کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔