"KMK" (space) message & send to 7575

تیسری طلاق اور متوقع پریس کانفرنس

دو روز سے جو دوست بھی فون کرتا ہے یا ملتا ہے وہ صرف ایک ہی بات پوچھتا ہے کہ جاوید ہاشمی والا کیا قصہ ہے؟ ملتان کا رہائشی اور یہاں کی سیاست کا طالب علم ہونے کے حوالے سے دوستوں کو گمان ہے کہ مجھے معاملات کا پورا ادراک نہ سہی لیکن کچھ نہ کچھ ضرور پتہ ہوگا۔ خوش گمانی کا کیا علاج ہے؟ جاوید ہاشمی کے بارے میں اور کیا لکھوں؟ چند روز پہلے بھی ایک کالم لکھا تھا جب جاوید ہاشمی ٹیکنوکریٹ گورنمنٹ کے مسئلے پر ناراض ہو کر ملتان آ گیا تھا۔ جاوید ہاشمی کوئی قرون اولیٰ سے تعلق رکھنے والے اصحاب جیسا نہ تو ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ بشری کمزوریوں کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو بے شمار خامیوں اور خرابیوں کا ذکر ہو سکتا ہے جو جاوید ہاشمی میں موجود ہیں اور صرف جاوید ہاشمی پر ہی کیا موقوف‘ اسی پیمانے کی خامیاں اور خرابیاں تو ہم سب میں موجود ہیں بلکہ شاید بدرجہ اتم‘ لیکن معاملہ فی الوقت ان خامیوں کا نہیں جو جاوید ہاشمی میں ہیں بلکہ اس قدم کا ہے جو جاوید ہاشمی نے اٹھایا ہے۔ 
ممکن ہے جاوید ہاشمی کی انتخابی سیاست اب ختم ہو جائے۔ ''ممکن ہے‘‘ اس لیے لکھا ہے کہ ہمارے ہاں ایک نہایت ہی واہیات قول سیاست کا جزوِ لاینفک ہے کہ ''سیاست میں سب کچھ جائز ہے‘‘۔ اس لیے کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا مگر بظاہر نظر یہی آتا ہے کہ جاوید ہاشمی کی انتخابی سیاست اب ختم ہی سمجھیں کہ وہ پیپلز پارٹی میں جا نہیں سکتا‘ مسلم لیگ میں جانا بھی اب اس کے لیے ممکن نظر نہیں آتا اور تحریک انصاف! یہ دروازہ اب اس کے لیے ہمیشہ بند سمجھا جائے۔ اس دروازے کو بند کرنے کے بعد اس میں کیل خود جاوید ہاشمی نے ٹھونکے ہیں۔ عمران جیسا شخص اب جاوید ہاشمی جیسے باغی کے ساتھ چلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ 
جاوید ہاشمی نے جو کہنا تھا کہہ دیا۔ اب ساری باتیں اس کی تشریحات ہوں گی یا وضاحتیں‘ لیکن اب جاوید ہاشمی کے خلاف کردار کشی کی ایک مہم چلائی جائے گی جس کا آغاز ہو چکا ہے۔ گزشتہ رات ایک چینل نے ملتان سے طارق نعیم اللہ نامی سابق 
یونین کونسل ناظم کو لیا ہوا تھا۔ موصوف گریجوایٹ نہیں تھے لہٰذا اپنے چھوٹے بھائی شاہد محمود کو مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ایم پی اے بنوانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ 2008ء کے الیکشن تھے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر جاوید ہاشمی حلقہ این اے 149 ملتان II سے امیدوار تھا اور اس کے نیچے والی دو ایم پی اے کی سیٹوں میں سے ایک پی پی 194ملتان I سے شاہد محمود مسلم لیگ ن کا ٹکٹ ہولڈر تھا۔ جاوید ہاشمی نے (میری ذاتی معلومات کے مطابق) اپنے الیکشن کا بیشتر خرچہ جس میں پوسٹر‘ بینر‘ پینافلیکس‘ ٹرانسپورٹ وغیرہ شامل تھی شاہد محمود سے کروایا۔ یہ بات میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ سچ ادھورا نہیں ہونا چاہیے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سب امیدوار تقریباً یہی کرتے ہیں۔ جاوید ہاشمی تو ویسے بھی سفید پوش آدمی ہے جس کے پاس فی زمانہ الیکشن لڑنے کے لیے سارے دائو پیچ تو موجود ہیں مگر پیسہ نہیں ہے۔ خیر جاوید ہاشمی نے اپنے الیکشن کا خرچہ اپنے ایم پی اے سے کروایا۔ یاد رہے کہ ملتان سے (میں صرف ملتان کی بات اس لیے کر رہا ہوں کہ یہاں کی بہت سی باتیں میرے ذاتی علم میں ہیں۔ دیگر شہروں اور حلقوں میں بھی شاید یہی ہوا ہوگا) دیگر امیدواروں نے بھی یہی کیا‘ حتیٰ کہ بہت ہی اصول پسند بننے والے شاہ محمود قریشی نے 2002ء کے انتخابات میں اپنے نیچے الیکشن لڑنے والے ایم پی اے کے امیدوار رائے منصب علی سے خرچہ بھی کروایا اور اس کی گاڑیاں بھی استعمال کیں۔ یہ بات تو ایسے درمیان میں آ گئی وگرنہ بات جاوید ہاشمی کی ہو رہی تھی۔ بعدازاں طارق نعیم اللہ نے اپنے شریف ایم پی اے بھائی کی آڑ میں لمبا مال کمایا‘ جس میں ایکسائز کے دفتر سے لے کر پٹواریوں تک کو نہ بخشا گیا۔ جب جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں شرکت 
کی تو ایم پی اے نے بھی مسلم لیگ چھوڑ دی اور تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔ جب 2013ء کا الیکشن آیا تو جاوید ہاشمی نے پی پی 194 کے لیے شاہد محمود کے بجائے ظہیر الدین علیزئی کو تحریک انصاف کی ٹکٹ جاری کروا دی۔ سابق ایم پی اے نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔ اب معاملہ گڑبڑ ہو گیا اور ایم پی اے اور اس کے بھائی نے جاوید ہاشمی کے بارے میں الیکشن کے خرچے کی کہانیاں سنانا شروع کردیں اور ساتھ ہی مسلم لیگ ن کو معافی نامے کے لیے درخواست کردی بلکہ مختلف لوگوں سے کہلوایا بھی اور ا یس ایم ایس بھی کیے۔ ایک مسلم لیگی وفاقی وزیر نے مجھے ایسا ہی ایک ایس ایم ایس دکھایا بھی تھا۔ 
ظہیر الدین علیزئی نے حسب روایت جاوید ہاشمی کے الیکشن پر پیسہ لگایا۔ حسب معمول پوسٹر چھپوائے‘ بینر لگوائے‘ ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا اور پینافلیکس لگوائے۔ یہ خرچہ ویسے ہی کیا گیا جیسے اس نے وزیرستان جانے والے تحریک انصاف کے قافلے کے لیے ملتان سے بسوں کا بندوبست کیا‘ راستے میں کھانے کا خرچہ کیا اور ڈیرہ اسماعیل خان میں رہائش کا اہتمام کیا۔ شنید ہے کہ جاوید ہاشمی نے ظہیر الدین علیزئی کو ٹکٹ دلوانے کے عوض نقد نذرانہ بھی وصول کیا۔ یہ بالکل اسی قسم کا ناجائز نذرانہ تھا جیسا پیر اپنے مریدوں کو دعا دینے یا تعویز دینے کے عوض وصول کرتے ہیں۔ شوکت گجر راوی ہے کہ اسے سندھ کے دورے کے دوران ایک دوست نے بتایا کہ ''مخدوم‘‘ شاہ محمود عمر کوٹ سندھ کے دورے پر تھا اور جیپ پر جا رہا تھا کہ دور سے بھاگ کر آنے والے‘ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس‘ پسینے سے بھیگے ہوئے اور دھو ل میں اٹے ہوئے ایک نہایت ہی غریب سے آدمی نے رکنے کا اشارہ کیا۔ شاہ محمود کے ڈرائیور نے جیپ روک دی۔ ہانپتے ہوئے اس مفلس مرید نے پہلے مخدوم صاحب کے گھٹنے چھوئے‘ ہاتھ کو بوسہ دیا اور پھر ایک مڑا تڑا ہوا بوسیدہ سا سو روپے کا نوٹ نکالا اور اپنے پیر کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ مخدوم نے وہ نوٹ ساتھ بیٹھے ہوئے اپنے منیجر کو پکڑا دیا اور مرید کو دعا دے کر رخصت کردیا۔ ''مخدوم جاوید ہاشمی‘‘ نے نواب ظہیر الدین علیزئی سے نذرانہ لیا۔ ظہیر الدین وہ نذرانہ افورڈ کر سکتا تھا اور ''مخدوم شاہ محمود‘‘ نے جس مرید سے نذرانہ لیا اس کی‘ اس وقت کل کائنات یہی سو روپے کا نوٹ تھا۔ 
کل رات میں نے ایک چینل پر شاہ محمود قریشی کو جاوید ہاشمی کے بارے میں نہایت شائستگی‘ خوش اخلاقی اور تعظیم کے ساتھ مروت بھری گفتگو کرتے سنا۔ سن کر دل خوش ہوا کہ اب بھی سیاست میں مروت‘ روایات اور اخلاقیات کا چلن ہے‘ لیکن صبح ہی یہ ساری خوش فہمی اور خوش گمانی ہوا ہوگئی۔ جاوید ہاشمی کے بارے میں بامروت گفتگو کر کے اپنا اخلاقی قد بڑھانے والے شاہ محمود گزشتہ ایک روز سے ملتان میں ہر اس شخص کو فون کر کے جاوید ہاشمی کے بارے میں مختلف سکینڈل پھیلانے پر اکسا رہا ہے۔ سب سے زیادہ وزن بے چارے اکلوتے ایم پی اے ظہیر الدین علیزئی پر ہے کہ وہ پارٹی ڈسپلن کا پابند ہے اور لیڈر شپ کے احکامات ماننے پر مجبور۔ سب لوگ جاوید ہاشمی جیسے باغی تو ہوتے نہیں کہ علم بغاوت بلند کردیں۔ جاوید ہاشمی کی بشری کمزوریاں اپنی جگہ۔ ٹکٹوں کے پیسے لینے کا معاملہ اور الیکشن میں خرچہ کروانے کا معاملہ اپنی جگہ لیکن اس کی جمہوریت کے لیے کمٹمنٹ اور جمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے دی جانے والی قربانیوں سے انکار کرنا بہت بڑی زیادتی ہوگا۔ اگلے دو چار روز اسی قسم کی فرمائشی اور تنظیمی پریس کانفرنسوں کا وقوع پذیر ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوگی۔ 
اس نے ایوب خان کے خلاف بھٹو کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جب بھٹو طاقت میں آیا تو اس کے غیر جمہوری رویے اور آمرانہ اقدامات کے خلاف احتجاجاً اسے تب چھوڑا جب وہ اقتدار میں تھا۔ ضیاء الحق کا ساتھ دینا تب تمام اینٹی بھٹو لوگوں میں شاید فیشن کے طور پر رائج تھا۔ جاوید ہاشمی نے ضیاء الحق کے خلاف فخر امام وغیرہ سے مل کر قومی اسمبلی میں آزاد گروپ اس وقت بنایا جب ضیاء الحق کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا۔ اس نے مسلم لیگ ن کو تب چھوڑا جب میاں نوازشریف اینڈ کمپنی اقتدار کی بس میں سوار ہو کر مزے کر رہی تھی اور اب عمران خان کی پی ٹی آئی۔ گمان ہے کہ یہ جاوید ہاشمی کی شاید تیسری طلاق ثابت ہوگی جس کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں رہتی مگر ایمانداری کی بات ہے کہ اب ہماری سیاست میں ایسے کردار تقریباً ختم ہو چکے ہیں جو جمہوریت اور آئین کے لیے ذاتی سیاسی زندگی کی قربانی دے دیں۔ بیماری اور عمر کے ہاتھوں روبہ زوال صحت والا جاوید ہاشمی آج بھی بہت سے بزعم خود بہادروں سے کہیں زیادہ بہادر اور کئی جمہوری چیمپئنوں سے زیادہ چیمپئن ہے۔ وہ آرام سے صدارت کر سکتا تھا اور اگلے الیکشن میں پھر جیت سکتا تھا‘ لیکن اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا جو اس کے سیاسی کیریئر کے خاتمے پر منتج ہو سکتا ہے۔ یہ اس کی جمہوریت سے اور آئین سے محبت کا ثبوت ہے۔ باتیں تو بہت لوگ کرتے ہیں مگر قربانی دینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ہاں! بھلے سے وہ ابھی تک پی ٹی آئی کا منتخب ہی سہی‘ صدر ہی سہی مگر اسے اسمبلی کے اجلاس میں بہرحال نہیں جانا چاہیے تھا۔ یہ طرز عمل بھی جمہوری نہیں ہے۔ اسے اسمبلی میں جانے سے پہلے دوبارہ عوام کے پاس جانا چاہیے تھا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں