ہر حادثے کے بعد، مختلف دستخطوںکے ساتھ ایک بیان جاری ہوتا ہے: اس کی ذمہ دار ایک تیسری قوت ہے۔عمران خان سے مولانا سمیع الحق تک اور سید منور حسن سے وزیر داخلہ تک،سب کی اُنگشت شہادت اِس کی طرف اٹھتی ہے۔یہ کوئی نہیں بتاتا کہ تیسری قوت کون سی ہے۔اسلام آباد کے حادثے کی ذمہ داری 'احرارا لہند‘نے قبول کی ہے۔ کیا اسے تیسری قوت کہا جاسکتا ہے؟ یا ایف سی کے جوانوں کی شہادت کے بعد،کیا یہ تیسری قوت تحریکِ طالبان مہمند تھی؟ہر واقعے میں کیا تیسری قوت نئی ہوتی ہے؟ راولپنڈی کے آر اے بازار میں دھماکہ ہوا تو یہ تیسری قوت کون سی تھی؟سوال یہ ہے کہ پہلی دو قوتیں کون سی ہوتی ہیں؟مو جود ہ تناظر میں،حکومت اور طالبان کے علاوہ بھی کوئی پہلی یا دوسری قوت ہو سکتی ہے؟واقعہ یہ ہے کہ پیش پا افتادہ حقائق سے صرف ِ نظر کی عادت ہی سے تیسری قوت کی طرف نگاہیں اٹھتی ہیں۔ سادہ باتوں کے الجھاؤ سے یہی ہو تا ہے۔موہوم سازش کا تعاقب بھی اسی جگہ لے آتا ہے۔
سادہ بات وہی ہے جو ایک مدت سے دہرائی جارہی ہے۔وہ بات جو اللہ تعالیٰ کے دین نے واضح کر دی۔جہاد‘ ریاست کی ذمہ داری ہے۔کسی غیر ریاستی ادارے یا گروہ کو یہ حق حاصل نہیںکہ وہ اس کام کے لیے ہتھیار اٹھائے۔ اجتہاد کسی عالم کے فتوے یا کسی گروہ کے اجتہاد سے فرض نہیں ہوتا۔ یہ حق اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو دیا ہے کہ وہ جہاد کا اعلان کرے۔اس نظمِ اجتماعی کو آج ہم ریاست کہتے ہیں۔اس کی دلیل اتنی واضح ہے کہ اس کا انکار عقلاًمحال ہے۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ حق کسی غیر ریاستی گروہ کوحاصل ہے تواسے کسی ایک گروہ تک محدود نہیں رکھا جا سکتا۔اگر تحریکِ طالبان کو یہ حق ہے کہ و ہ جہاد کرے تو کسی دوسرے گروہ کو کیوں نہیں؟ آج اس نے فیصلہ کیا ہے کہ اس نے جہاد نہیں، ریاست سے مذاکرات یا مفاہمت کرنی ہے توعمر قاسمی صاحب کو کیوں یہ حق نہیں کہ وہ ان سے اختلاف کریں اورجہاد جاری رکھنے کاا علان کریں؟تیسری قوت اسی طرح جنم لیتی ہے۔کل اگر یہ گروہ عسکری طور پر اتنا مضبوط ہوجاتا ہے کہ ریاست اس کے ساتھ مذاکرات کرتی ہے اور کوئی مولانا سمیع الحق انہیں اپنا روحانی بیٹا بنا لیتا ہے تویہی احرارالہند دوسری قوت بن جائے گی۔ اس کے بعد یہ ممکن ہے بلکہ ناگزیر ہے کہ ایک اور گروہ نمودار ہو جو ان مذاکرات کو مسترد کردے۔یوں وہ تیسری قوت بن جائے گا۔جب تک جہاد کا اعلان اور فیصلہ غیر ریاستی گروہوںکے لیے ثابت ہے ،تیسری قوت کی پیدائش کو روکا نہیں جا سکتا۔
اِس وقت ریاست اس حق کو چیلنج کررہی ہے نہ علما۔طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوں یا عمومی گفتگو ،کہیں اس بات کا گزر نہیں۔ہمارے تجزیہ نگار بھی اس عمل کوبعض بلوچ گروہوں کی جد وجہد کے مشابہ قرار دیتے اور یہ کہتے ہیںکہ اُن سے مذاکرات ہو سکتے ہیں توطالبان سے کیوں نہیں۔ وہ اس بات کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ طالبان ایک تعبیرِ دین پرکھڑے ہیں۔اس کے مطابق پاکستان کی ریاست ایک طاغوت ہے۔طاغوت سے مفاہمت کبھی نہیں ہو سکتی۔طاغوت کو سرنگوں کیا جا ئے گا یا پھر اس سے ٹکراکر جان دے دی جا ئے گی۔ تیسرا راستہ یہاں نہیں ہے۔ اسی لیے میں نے علمائے دیوبند کی خدمت میں یہ عرض کیا تھاکہ وہ طالبان کواس پر قائل کریں کہ وہ ریاست کی حاکمیت(authority) کوتسلیم کر لیں۔اس کے ساتھ وہ یہ بھی بتائیں کہ اسلام میں غیر ریاستی جہاد کا کوئی تصورموجود نہیں۔ اسلام نے مسلمانوں کو 'الجماعۃ‘ سے وابستہ رہنے اور اس کے امیرکی اطاعت کا حکم دیا ہے۔الجماعۃ سے مراد پاکستان اور امیرکا مطلب اس کی حکومت ہے جس کے پاس قوتِ نافذہ ہے۔ تیسری قوت کو روکنے کی واحد صورت اسی تصورکا فروغ ہے۔
بعض لوگ یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ ہماری حکومت اسلامی نہیں‘ یا یہ کہ وہ جہاد جیسی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی‘ اس صورت میں نجی جہاد کی اجازت ہے۔یہ اعتراض درست نہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ حکومت مسلمانوں کی مشاورت سے وجود میں آئی ہے‘ اس لیے اس کی اطاعت کی جائے گی۔اب اہلِ اقتدار میں اتنا ہی اسلام ہوگا جتنا سماجی سطح پرموجود ہے۔اگر مسلمان اربابِ حل وعقد کے انتخاب میں غلطی کر رہے ہیں توان کی تعلیم و تربیت کی جائے گی۔ ان کا حق کسی مسلح گروہ کو نہیں دیا جا سکتا کہ وہ عوام کی جگہ کسی حکمران کا انتخاب کرے اور اسے مسلمانوں کی گردن پر مسلط کر دے۔سیدنا عمر ؓبتا چکے کہ جو اس کی جسارت کرے‘ وہ خود گردن زدنی ہے کہ اس کا یہ اقدام مسلمان سماج میں فساد کا باعث بنے گا۔ رہی بات حکمرانوں کی‘ تو ان کے بارے میں بھی ہمیں تعلیم دی گئی ہے۔اگر ان میں کوئی خرابی ہے تو ہم انہیں انذار کریں گے۔ یعنی اللہ کے حکموں کی طرف متوجہ کریں گے؛ تاہم، ان کی اطاعت کریں گے الا یہ کہ وہ ہمیں کسی گناہ کے کام کا حکم دیں۔مو جو دہ جمہوری عہد میں تو عوام کے پاس یہ متبادل مو جود ہے کہ وہ ایک خاص وقت کے بعد اپنی رائے سے حکمرانوں کومعزول کرسکتے ہیں۔اسے ہم انتخابات کا عمل کہتے ہیں۔
تیسری قوت کا راستہ اسی طرح روکا جا سکتا ہے۔ایک یہ کہ علما دو اور دو چار کی طرح واضح کریں کہ اسلام میں جہاد صرف ریاست کی ذمہ داری ہے اور کسی غیر ریاستی گروہ کا یہ حق کسی فتوے سے ثابت نہیں ہو تا۔ دوسرا یہ کہ ملک میں جمہوریت رہے تاکہ عوام ان لوگوں کو ایوانِ اقتدارتک پہنچائیں جو اپنی ذمہ داریاں اللہ کے حکموں کے مطابق ادا کریں۔اگر وہ اس سے انحراف کریں تو عوام انہیں ہٹا بھی سکیں۔ اسی بات پر طالبان سے مذاکرات ہوں اوراسی پر قومی اتفاقِ رائے بھی پیدا کیا جائے۔پاکستان کو فساد سے نکالنے کا یہی طریقہ ہے۔اگر اسے اسلامی ریاست بنناہے تو بھی اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔یہ دونوں مو ضوعات ایسے ہیں جن کے بارے میں ہمارے ہاں آئے دن فکری پراگندگی کے مظاہر سامنے آتے ہیں۔ کوئی نجی جہاد کا علم اٹھائے ہوئے ہے اورکوئی جمہوریت کو کوس رہا ہے۔اس کے بعد تو تیسری قوت کا راستہ بند نہیں ہو سکتا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلام آباد جیسے حادثات،طالبان کی حکمت عملی کا نتیجہ ہیں۔ میں طالبان کی بات کا اعتبارکر تا ہوں کہ احرارالہندکا کوئی تعلق تحریکِ طالبان سے نہیں ہے۔ میرے نزدیک اس طرح کی تیسری قوت کا ظہور فطری ہے ،اگر دوسری قوت کا جواز تسلیم کر لیا جاتا ہے۔کسی کا خیال ہے کہ تیسری قوت امریکہ ہے۔ مجھے امریکہ کے بارے میں کوئی خوش گمانی نہیں ہے۔وہ اپنے مفاد کے لیے ہر طرح کی بے اخلاقی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔میراکہنا یہ ہے کہ امریکہ تو اپناکھیل ضرورکھیلے گا۔اگر وہ ایسا نہ کرے توبھی تیسری قوت کو پیدا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔دوسری قوت ہوگی تو وہ بانجھ نہیں ہو گی۔ لازم ہے کہ اس کے انڈے بچے ہوں۔تیسری قوت دوسری قوت سے جدا نہیں ہے۔