کالم نگاری میں خیالات کی جگالی سختی سے ممنوع ہے‘ لہٰذا میں اپنے کالم کا آغاز کسی نئی بات سے کروں گا اور وہ نئی بات یہ ہے کہ ’’نئی حکومت نے ایران سے گیس پائپ لائن کی بجائے قطر سے این ایل جی کا کاروبار بڑھانے کا قطعی فیصلہ کر لیا ہے‘‘۔۔۔۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کے بارے میں جن لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایران کا تیار کردہ ہے‘ ان کی معلومات بالکل غلط ہیں۔ ایران سے گیس پائپ لائن کی کہانی 1950ء سے شروع ہوتی ہے‘ جب ملٹری کالج آف انجینئرنگ رسالپور کے ایک نوجوان او ر ذہین پاکستانی سول انجینئر ملک آفتاب احمد خان نے ’’ پرشین پائپ لائن‘‘ کے نام سے ایران سے گیس لانے کا منصوبہ پیش کیا۔ جب یہ مضمون لکھا گیااس وقت اسے بہت پذیرائی ملی اور خوش قسمتی سے ملک آفتاب کی یہ تحریر ایران اور پاکستان کے سرکاری ریکارڈ کا حصہ تو بن گئی لیکن عملی جامہ پہنانے کے لیے کسی بھی طرف سے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ جب یہ تحریر لکھی گئی اس وقت تک پاکستان میں گیس کا نام و نشان بھی نہیں تھا لیکن پھر1952ء میں بلوچستان میں سوئی کے مقام پر گیس کی تلاش شروع ہوئی اور1955ء میں پہلی بار پاکستان گیس کے نام سے متعارف ہوا لیکن ابتدائی طور پر یہ مقدار بہت ہی کم تھی اور اس وقت تک اس کا استعمال بھی کم تھا۔ 1950ء میں پاکستانی سول انجینئر کا تجویز کردہ منصوبہ پرانی فائلیں جھاڑ کا باہر نکالا گیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے اور آخری دور حکومت 1995ء میں ایران اور پاکستان کے درمیان گیس پائپ لائن بچھانے کے اس معاہدے پر ابتدائی طور پر دستخط ہوئے۔ اپنے افتتاحی خطاب میں میاں نواز شریف نے گوادر بندر گاہ چین کو دینے کی تعریف توکر دی لیکن ایران گیس پائپ لائن کے ذکر کو وہ نہ جانے کیوں گول کر گئے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے بعد پاکستان کو جس سب سے بڑے مسئلے کا سامنا ہے‘ وہ ہمارا توانائی کا بحران ہے۔ 2700کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن‘ جو ایران کے گیس فیلڈ پارس سے شروع ہوگی‘ ایران میں گیارہ سو کلومیٹر اور پاکستان میں ایک ہزار کلومیٹر طویل ہو گی جبکہ بقیہ چھ سو کلومیٹر گیس پائپ لائن بھارتی علاقے سے گزرے گی۔ اگست2008ء میں چین نے بھی اس منصوبے کا حصہ بننے کی با قاعدہ خواہش کا اظہار کر دیا‘ جس سے امریکہ مزید سیخ پا ہو گیا۔ گیس پائپ لائن کے اس ابتدائی منصوبے کی کل لاگت کا تخمینہ سات بلین ڈالر کے قریب ہے۔ یہ پائپ لائن بیالیس سے پچاس انچ ڈایا میٹرکی ہو گی اور اس پر پاکستان کے 3.2 بلین ڈالر اخراجات آنے کا امکان ہے۔ پاکستان جب اپنی مفلوک الحالی کی وجہ سے اس قدر بھاری رقم کی فراہمی سے قاصر ہو گیا تو چین نے آگے بڑھتے ہوئے تیس مارچ2010ء کو اس منصوبے کیلئے2.5 ملین ڈالر دینے کی ہامی بھرلی اور اس منصوبے میں با قاعدہ شامل ہونے کی خواہش کا اظہار بھی کر دیا۔ چین کے بعد سات اپریل2012ء کو روس نے بھی اس منصوبے میں دلچسپی لیتے ہوئے پاکستان کو مکمل بیل آئوٹ پیکیج کی پیش کش کرتے ہوئے روس کی گیس کی سب سے بڑی کمپنیGAZPROM کی معاونت سے پاکستان کو در پیش تمام ٹیکنیکل اور فنانشل اخراجات برادشت کرنے کا اعلان کر دیا جو امریکہ اور چند دیگر ممالک کوکسی صورت بھی گوارہ نہیں ہے۔ یہ منصوبہ ابتدا سے ہی کچھ آنکھوں کو کھٹکنا شروع ہو گیا اور نومبر 1996ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کا سبب بھی بنا۔ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے بعد جنوری2010ء میں امریکہ نے پاکستان کو با قاعدہ طور پر اس پراجیکٹ سے مکمل اور قطعی علیحدگی کا ’’حکم‘‘ دیا اور اس کے بدلے پیش کش کی کہ امریکہ پاکستان کوNLG ٹرمینل کے علاوہ تاجکستان سے براستہ افغانستان سستی بجلی مہیا کرادے گا۔ کون نہیں جانتا کہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی گیس اور توانائی کی ضرورت دن بدن بڑھتی جائے گی اور ہماری آنے والی نسلیں اس وقت امریکہ اور اس کے حواریوں کو کوسیںگی جب توانائی بحران کا اژدھا سب کو نگلنے کے لیے پوری قوت سے پھنکارنے لگے گا۔ ایران سے امریکہ کی چپقلش چھپی ہوئی نہیں ہے لیکن جب چین اور روس نے اس منصوبہ کی تکمیل کیلئے ایکا کر لیا تو مغرب اور امریکہ کے اتحادی گھبرا گئے اور اس منصوبے کی راہ میں‘ یہ جانتے ہوئے کہ اس سے پاکستان 200 سے500 ملین ڈالر سالانہ کما سکتا ہے ،بیروزگاری کے طوفان پر قابو پا سکتا ہے، اپنے عوام کو مہنگائی کے عذاب سے بچا سکتا ہے‘ رکاوٹیں ڈالنی شروع کر دیں۔ گیس پائپ لائن کے منصوبے کو روکا نہ گیا تو پاکستان کو روزانہ 110 ملین کیوبک میٹر گیس ملنے کی امید ہے۔ اس میں سے پچاس ملین ایران اور ساٹھ ملین کیوبک میٹرگیس پاکستان کے استعمال کیلئے ہو گی۔ اس منصوبے سے سندھ اور جنوبی پنجاب کے دیہات کے علا وہ پاکستان کی ہزاروں صنعتوں کو چالو رکھنے اور اس میں کام کرنے والے لاکھوں مزدوروں کو روزگار فراہم ہو سکے گا۔ ایران گیس کا یہ منصوبہ دسمبر2015ء میں مکمل ہو گا۔ اس کی با قاعدہ تکمیل کے ابتدائی چند ماہ کے بعد پاکستان کو اس منصوبے سے پچیس سال تک 750 ملین کیوبک فٹ گیس ملنے کا امکان ہے ۔ 1947ء میںپاکستان کے قیام سے اب تک کسی روسی صدر نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا اور ستمبر 2012 ء میں صدر پیوٹن کا پہلا مجوزہ دورہ پاکستان کیوں ملتوی ہوا؟ اس کا پس منظر بھی سامنے رکھنا ہو گا جس کی وجہ اس کے علا وہ اور کچھ نہیں کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن سمیت پاکستان کی توانائی کی کمی کو دور کرنے کے لیے روس کے منصوبے میں پاکستان کے کوٹ ادو اور مظفر گڑھ پاور ہائوسز کی تعمیر اور ترقی بھی شامل ہے جبکہ کچھ کاروباری شخصیات در پردہ کوٹ ادو اور مظفر گڑھ پاور ہائوسز کو ہتھیانا چاہتی ہیں۔ آخر کب تک عوام لوڈشیڈنگ اور غربت سے مرتے رہیں گے‘ حکمرانوں کو عوامی مفاد کے لیے قدم اٹھاتے وقت ہر قسم کی دھمکیوں اور دبائو کو پائوں تلے روندنا ہوگا‘ تبھی یہ ملک درست سمت کی جانب گامزن ہوگا۔